Article by Khawar Jamal, Ex Crew. Posted by Abid Khalil

عملہ اور مانچسٹر کا بھوت

ہوا کچھ یوں کہ ایک دن میں “برائلر مرغا” بنا بیٹھا تھا (وہ استعارہ جو سٹینڈ بائے عملے کے لیئے میں ایک گزشتہ قسط میں استعمال کر چکا ہوں) کہ اچانک فون آیا کہ صبح مانچسٹر فلائٹ پر جانے کے لیئے قرعہ اندازی میں تمھارا نام نکل آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عملے کی تعداد جہاز پر معمول سے کم ہو گی، معزز مہمانوں سے جہاز مکمل بھرا ہو گا یعنی فل پیک اور مانچسٹر میں قیام جہاز کی ٹینکی میں ڈیڑھ لیٹر پیٹرول کے مترادف ہو گا۔

جس پرواز پر بیرون ملک قیام 24 گھنٹے یا اس سے کم ہو اس کو عملے کی زبان میں “اوور نائٹ” کہا جاتا ہے۔

اس طرح کی پرواز پر ہوٹل میں قیام کے دوران مکمل آرام کرنے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ورنہ واپسی کی پرواز پر حال خراب ہو جاتا ہے۔ اچھا 24 گھنٹے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہوٹل پہنچے ہیں تو پھر میٹر چالو ہو گا۔ پرواز اترنے کے آدھے گھنٹے بعد سے گھڑی چلنا شروع ہو جاتی ہے۔

اب مسافر اتریں گے، پھر آپ کی باری آئے گی، آپ نے اپنا سامان لیا، کسٹم سے گزرنے کے بعد ہوٹل کی بس میں سوار ہوئے۔ اکثر ہوٹل دور ہوتے ہیں تو وہ وقت بھی لگا لیں۔ اب ہوٹل پہنچ کر آپ کو کمرہ الاٹ ہوا۔ کمرے میں جا کر آپ نے پچھلے 10 سے 11 گھنٹے کے دوران مغل کے گارڈر اور ٹی آئرن کی طرح سیدھی کمر کو بیڈ پر ٹکایا اور دل کیا کہ اس پر کوئی بل ڈوزر چلا دے۔ اب کچھ کھانے کا انتظام کرنا ہے اور بھر کہیں نیند کی باری آئے گی۔

یہ سب ایک معمول کی پرواز کے بعد کی صورتحال ہے، اس میں اگر آپ ان دیکھے حالات و واقعات جو کبھی بھی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں، ڈال دیں تو وہ وقت الگ سے لیں گے۔ یہ سب کاروائی اس 24 گھنٹے میں ہی آئے گی۔ یاد رہے کہ واپسی کی پرواز کے لیئے 3 گھنٹے پہلے ہوٹل سے نکلنا ہے اور اس سے پہلے “بریفننگ ہونی ہے اور ظاہر ہے اس سے پہلے اٹھ کر تیار بھی ہونا ہے۔ تو قارئین انگشت بدنداں سے عرض یہ ہے کہ چوبیس میں سے بیس گھنٹے تو یہ سب معاملات میں نکل جاتے ہیں اور آپ کے پاس “چو گھنٹے” چھوڑ جاتے ہیں۔ چلیں یہ تو مذاق کی بات ہو گئی لیکن نیند کے لیئے 6 سے 8 گھنٹے ہی بچتے ہیں۔

اب یہ نیند کیسی ہونی چاہیئے۔ آرام دہ اور پر سکون ہونی چاہیئے بھئی یقیناً۔ لیکن اگر اس دوران بھائی لوگ آ جائیں اور ماورائی حرکات و سکنات بطریق احسن آپ کے کمرے میں منظم انداز سے ادا کرنے لگ جائیں تو کیا بنے آپ کا۔ اوپر لمبی داستان بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اتنے مراحل سے گزر کر جب آخرکار آپ آرام کرنے لگتے ہیں تو تھکن اور نیند کے غلبے میں بہت کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ اس رات بھی ایسا ہی ہوا۔

قیام قلیل تھا

 کام طویل تھا

چنانچہ طبعیت علیل تھی

لیکن کمرہ جمیل تھا۔

اس دن شہر میں کوئی لوکل ایونٹ تھا تو ہمیں معمول کے ہوٹل کے بجائے ایک اور ہوٹل میں بھیج دیا گیا۔ جگہ واجبی سی تھی لیکن آس پاس ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لیئے مارکیٹ موجود تھی۔ کمرہ اٹھارویں صدی کے کسی لارڈ کا کمرہ لگتا تھا۔ مضبوط لکڑی کا ڈبل بیڈ، یہ چوڑی سنگھار میز اور اس کے سامنے قد آدم آئینہ۔ الماری اتنی کشادہ کہ میں سامان سمیت آرام سے اس کے اندر جا سکتا تھا۔ قالین لیکن بوسیدہ تھا۔ شاید اٹھارویں صدی کا ہی تھا۔ خیر مجھے پرانی چیزیں پسند ہیں تو شاید اس لیئے کمرہ اچھا لگ رہا تھا۔ بس بیت الخلا میں جو بیسن کی ٹونٹیاں تھیں، وہ وہی ایک شدید ٹھنڈی اور ایک شدید گرم۔ ایک میں انٹارکٹیکا سے پانی آ رہا تھا اور دوسری کا پائپ ڈائریکٹ سورج میں لگا ہوا تھا۔

کھانا کھا کر میں لفٹ میں سوار ہوا اور مقررہ منزل پر اتر کر راہداری سے گزرتا ہوا کمرے کی طرف جا رہا تھا جب مجھے محسوس ہوا کہ جہاں سے میں گزرتا ہوں وہاں راہداری میں لگا ہوا بلب بند ہو جاتا ہے اور میرے گزر جانے کے بعد جل جاتا ہے۔ حالانکہ معاملہ اس سے الٹ ہونا چاہیئے تھا۔ خیر میں نے سوچا ان کا سسٹم الٹا چلتا ہوگا، لیکن میرے خیال سے کام شروع ہو چکا تھا۔ ہر دیوار پر مناسب فاصلے سے پرانے انگریزوں کی تصاویر آویزاں تھیں جن پر سرسری نظر ڈالتا ہوا میں کمرے میں داخل ہو گیا۔

ہمیشہ کی طرح میں نے کھڑکی کا پردہ کھول دیا کہ روشنی اندر آتی رہے اور کمرے کی تمام روشنیاں بند کر دیں۔ نہیں معلوم رات کا کونسا پہر تھا کہ سخت بدبو سے میری آنکھ کھل گئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی گند سے بھرا ہوا تھیلا کمرے میں پھینک گیا ہو۔ میں نے سائیڈ لیمپ روشن کرنے کی کوشش کی مگر نہیں ہوا۔ ساتھ ہی بٹن تھا جس سے پورے کمرے کی لائٹ جل جاتی تھی۔ وہ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ بیڈ سے نیچے پاوں رکھا تو قالین گیلا محسوس ہوا۔ فوراً واپس بیڈ پر آگیا۔

 دل بھاری ہو رہا تھا سوچ رہا تھا کیا کرنا چاہیے۔ پانی کی بوتل کھولی اور دو گھونٹ بھرے، شکر ہے پانی ٹھیک تھا۔ کمرے میں نظر دوڑائی تو سنگھار میز کے قد آدم آئینے میں ایک ہیولا سا بنتا محسوس ہوا اور کسی پرانی انگریز عورت کی شبیہ نمودار ہو گئی جس کا منہ اور نظریں دوسری طرف تھیں۔ میں بچپن سے “سلیپ پیرالسز” یعنی نیند کے فالج کا عادی ہوں۔ لیکن اس بار سب کچھ حقیقت میں ہو رہا تھا کیونکہ میں حرکت کر سکتا تھا۔ مگر اب ڈر کے مارے تمام قوتیں سلب ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔ مجھے لگا وہ عورت ابھی مجھے دیکھے گی اور اس کی آنکھیں لال ہوں گی، کیا پتہ اس کے پاؤں ٹیڑھے ہوں۔ خیر میں نے کھڑکی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا جہاں سے روشنی آ رہی تھی اور ہمت جمع کرنے لگا کہ بیڈ سے نیچے اتر سکوں کہ اچانک ٹک کی آواز آئی اور آئینے میں موجود عورت کی گردن یک لخت لڑھک کر قالین پر گر پڑی۔

چیخ تو کہیں دب دبا گئی لیکن میرے منہ سے دو عام فہم نازیبا الفاظ نکلے اور اسی اضطراری کیفیت میں ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل آئینے پر ہی دے ماری۔ ایک دم سارا کمرہ روشن ہو گیا۔ میری سانس پھول گئی اور ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہیں تھی۔ حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے لیکن پانی کی بوتل اٹھانے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ جتنی سورتیں آتی تھیں سب کی سب پڑھ ڈالیں لیکن ہلنے کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی۔ آخرکار خدا خدا کر کے ہمت کی اور اٹھا۔ قالین خشک تھا اور اب کوئی بدبو نہیں آ رہی تھی۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں باقی وقت میں پورے کمرے کی لائٹ جلا کر سونے کی کوشش کرتا رہا جس میں خاطر خواہ ناکامی ہوئی۔ ویسے جنہوں نے پہلے بند کر دی تھی ان کے لیئے بعد میں بھی بند کر دینا کون سا مشکل تھا۔