Article by Khawar Jamal, Ex Crew. Posted by Abid Khalil

فضائی عملے کا ہر گھڑی بدلتا وقت

جہاز پر جانے سے پہلے تمام عملے کی ملاقات لازمی ہوتی ہے جس میں سب سے سینئر باقی تمام عملے کو جہاز کے مختلف حصوں میں کام کرنے کے لیئے احکامات جاری کرتا ہے۔ ہنگامی حالات میں کس نے کہاں کیا کرنا ہے یہ سب معاملات طے کیئے جاتے ہیں۔ کیسے کرنا ہے؟ وہ سب عملے کو ٹریننگ میں سکھا دیا گیا ہوتا ہے۔ اس تمام عمل کو “بریفننگ” کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد جہاز پر پہنچ گئے اور معمول کے مطابق فرائض انجام دینے لگے۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب میں جب پہلی مرتبہ اس سات فٹ لمبے اور ڈھائی فٹ چوڑے دراز نما خانے میں آرام کرنے کے لیئے داخل ہوا تو قبر تو یاد آئی ہی ساتھ میں کسی سخت جرم کی پاداش میں قید تنہائی کاٹنے والے مجرموں کی دڑبہ نما جیل بھی یاد آئی کہ کمر سیدھی کر کے بیٹھنا اس ڈبے میں بھی ناممکن تھا۔ لیکن خیر بقول شخصے نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے لہذا دس منٹ بعد دنیا و مافیہا سے بے خبر میں تھا اور میرے خوابوں میں خرگوش تھے۔

اچھا ڈرامائی تشکیل ویسے کچھ زیادہ ہو گئی۔ میں دراصل بات کر رہا ہوں بے حد لمبی پرواز کے دوران فضائی میزبانوں کے آرام کے واسطے بنائے گئے “کریو بنکرز” crew bunkers کی۔ یہ مختلف جہازوں میں مختلف تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ شدید لمبی پرواز، جس کو انگریزی میں “لانگ ہال” Long Haul کہا جاتا ہے، کے دوران عملے کو کچھ گھنٹے (جن کا ہر ائر لائن اپنے حساب سے تعین کرتی ہے) آرام کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ لمبائی اور چوڑائی میں یہ اتنا ہی ہوتا ہے کہ ایک بندہ بس اس میں لیٹ سکے۔

حفاظتی اقدامات کو یہاں بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا بلکہ یہاں تو زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ مثلاً کسی وجہ سے روشنی کے انتظام میں خلل واقع ہو جائے تو ٹارچ موجود ہوتی ہے۔ آگ بجھانے کے لیئے آلات اور آکسیجن کی کمی ہو جانے کی صورت میں آکسیجن ماسک کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ اور تو اور ایک بیلٹ بھی گدے پر موجود ہوتی ہے۔ اس لیئے کہ آپ نیند کے دوران ادھر ادھر نہ نکل جائیں۔ مزید یہ کہ ہنگامی حالت میں فرار ہونے کے لیئے راستہ بھی موجود ہوتا ہے۔

 بعض ساتھیوں کو وہاں بالکل نیند نہیں آتی۔ ہانگ کانگ میں اماراتی اور شکاگو میں بھارتی فضائی عملے سے بات چیت کے دوران جب یہ معاملہ زیر بحث آیا تو یہی بات معلوم ہوئی کہ کافی لوگوں کو بنکر میں نیند نہیں آتی۔ اگر موسم خراب ہو اور جہاز مسلسل ہل رہا ہو یا آپ کو تنگ جگہ کا خوف ( کلاسٹرو فوبیا) لاحق ہے تو نیند تو کیا وہاں کچھ دیر ٹھہرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

زیادہ تر عملے کی کوشش پھر بھی یہی ہوتی ہے کہ اس وقفے کو غنیمت جانے اور کچھ دیر سو جائے تا کہ منزل پر پہنچنے کے بعد “جیٹ لیگ”  Jet Lag کا تھوڑا بہت مقابلہ کیا جا سکے۔ جی ہاں یہ عملے کا وہ امتحان اور آزمائش ہے جو اسے اپنی تمام پیشہ ورانہ زندگی میں درپیش رہتے ہیں۔ انسان کے جسم میں ایک گھڑی نصب ہے۔ وہ اس کو اپنے روزمرہ معمولات کے مطابق آراستہ کرتا ہے، اور پھر اسی کے حساب سے چلتا ہے۔ سونے جاگنے کا وقت مقرر ہو جاتا ہے۔ کھانا پینا اسی وقت کے حساب سے ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ تقاضائے قدرت کے اوقات بھی منظم ہو جاتے ہیں۔

اب اگر آپ ان اوقات کو درہم برہم کر دیں تو کیا ہو گا؟ بالکل صحیح جواب سوچ رہے ہیں آپ اس سوال کا۔ جی ہاں آپ ایک فضائی میزبان میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس گھڑی کے اوقات بار بار بدلنے سے جو اثرات جسم پر ہوتے ہیں ان کی فہرست طویل ہے۔ بے وقت بھوک اور نیند تو عام سی بات ہو جاتی ہے۔ جسم سست پڑ جاتا ہے، اور ہر وقت آرام کا طالب رہتا ہے۔ کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا یہاں تک کہ جسمانی اعضا کی حرکات پیمانہ منفی کو پہنچ جاتی ہیں۔

عام طور پر دنیا کے تمام فضائی عملے کی جسمانی گھڑی یعنی “باڈی کلاک” اس وقت کے مطابق چلتی ہے جس کو عرف عام میں”جی ایم ٹی” کہا جاتا ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے تمام فضائی میزبان اور پائلٹس، عام زندگی میں جی ایم ٹی کے حساب سے چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ جی ایم ٹی یعنی گرین وچ مین ٹائم وہ وقت ہے جو زمین کے طول البلد، یا میریڈیئن کی صفر ڈگری لائن پر ماپا جاتا ہے۔ یہ گرین وچ کے علاقے لندن کے نواح میں اولڈ رائل آبزرویٹری سے ہوتا ہوا قطب شمالی سے جنوب کی سمت چلتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں پروازیں اسی وقت یعنی جی ایم ٹی کے مطابق چلتی ہیں۔

اب مثال کے طور پر پاکستان کا معیاری وقت، جی ایم ٹی کے حساب سے پانچ گھنٹے آگے ہے۔ چناں چہ رات کے بارہ بجے یعنی صفر جی ایم ٹی پر پاکستان میں صبح کے پانچ ہوں گے۔ میں نے اکثر اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے سنا کہ یار مجھے رات کو تین بجے نیند آتی ہے اور دوپہر میں ایک ڈیڑھ بجے تک آنکھ کھلتی ہے۔ اب آپ جی ایم ٹی کے حساب سے دیکھیں تو سب لوگ رات دس بجے سوتے ہیں اور صبح آٹھ بجے جاگ جاتے ہیں۔ اب یہ سب “جی ایم ٹی کے حساب سے” بالکل صحیح اوقات ہیں لیکن پاکستان میں آپ کو لوگ زومبی، الو، چوکیدار اور نہ جانے کون کون سے القابات سے نوازیں گے کہ دیکھو یار نہ اس کے سونے کا وقت صحیح ہے نہ جاگنے کا۔

انہیں معاملات پر کچھ سال پہلے میں نے کیا خوب کہا ہے، عرض کیا ہے

گھڑیاں بھی ہیں تنگ مجھ سے

ہر وقت ہی وقت بدلتا ہوں

اب سفر ہی میری منزل ہے

میں جس دنیا میں رہتا ہوں

چلیں یہ سب تو یہاں تک ٹھیک ہے کہ آج کل دیر سے سونا ایک عام بات ہے۔ لیکن “جیٹ لیگ” وہ بلا ہے کہ جب آپ اس کے مد مقابل آتے ہیں تو یہ آپ کو “اضطرابات النوم” یعنی” سلیپ ڈس آڈر”  یا Insomnia کے اس درجے پر لے جاتا ہے کہ وہاں سے واپسی اس صورت ہی ممکن ہوتی ہے کہ جتنے گھنٹے آپ اپنے وقت سے آگے یا پیچھے جاتے ہیں اتنا ہی وقت اس جگہ پر گذاریں جہاں آپ پہنچے ہیں۔

پاکستان سے کینیڈا مسلسل پرواز کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ چودہ سے سولہ گھنٹے کا ہے۔ شروع میں تو پرواز کا اتنا وقت سن کر ہی خون خشک ہو گیا۔ ویسے یورپ جاتے ہوئے سات آٹھ گھنٹے لگ ہی جاتے ہیں، جو کہ کافی لوگوں کے لیئے بہت زیادہ ہیں، لیکن ہمیں اتنے وقت کی عادت تو ہو گئی تھی۔ اب معاملہ یہ تھا کہ پرواز کا وقت یورپ سے دو گنا ہو گیا تھا۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا تھا کہ اس پرواز پر نہ جانا پڑے مگر سال میں ایک بار جانا ہی پڑتا تھا۔ کینیڈا کا شہر ٹورنٹو وقت کے حساب سے جی ایم ٹی سے پانچ گھنٹے پیچھے ہے اور گرمیوں میں چار گھنٹے کر دیا جاتا ہے بوجہ ڈے لائٹ سیونگ۔

اب ملاحظہ فرمائیں کہ پاکستان سے آپ کو دس گھنٹے کا فرق پڑ گیا۔ ہوٹل پہنچتے ہی نیند تو آ جاتی ہے کیوں کہ آپ کچھ بھی نہیں تو اٹھارہ انیس گھنٹے کی نوکری کر کے پہنچتے ہیں۔ لیکن رات کو تین بجے سب اٹھ کر بیٹھے ہوتے ہیں کیوں کہ پاکستان میں دوپہر کے بارہ بج رہے ہوتے ہیں۔ اب اصولاً تو ٹورنٹو میں دس دن رہنا بنتا ہے لیکن کیا کریں کہ بہت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات۔

ایک دن کے بعد ہی واپسی کی تیاری کرنی پڑتی ہے۔ اور آپ دس گھنٹے آگے کے ٹائم زون میں واپس آ جاتے ہیں۔ اب خیر سے آپ کے باڈی کلاک میں بیس گھنٹوں کی گڑبڑ ہو چکی ہے۔ اب آپ کو دوپہر ایک بجے نیند آئے گی اور رات تین بجے آپ کی صبح ہو گی۔ اور ہاں، اکثر اوقات خواہ مخواہ موڈ خراب ہو جانے کی عادت آپ کو بونس میں ملے گی۔ لہذا اگر آپ کے جان پہچان والے لوگوں میں کوئی فضائی میزبان ہے تو یہ سب باتیں آپ ان سے ملنے جلنے کے معاملات میں ملحوظِ خاطر رکھیں۔ یہ نوکری سخت زیادہ اور نرم کم ہے۔ دور کے ڈھول واقعی بہت سہانے ہوتے ہیں۔

خاور جمال