Shahid Sohail

 

پی آئ اے میں نوکری کی شروعات کے دور میں ڈی سی 10 کی ایک نیویارک فلائیٹ پر جانے کا اتفاق ہوا۔سینئر پرسر کا نام لیٹر سے ہی پتہ چلا لیکن شخصیت ذہن میں نہیں آئ۔بریفنگ روم میں پہنچنے پر پتہ چلا کہ یہ صاحب ہیں۔ایک آدھ مرتبہ پہلے دیکھا ہوا تھا۔لیکن کوئ فلائیٹ کبھی ساتھ نہی کی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی جان پہچان تھی۔رات کی فلائیٹ تھی۔گذر گئ اور صبح کو فرینکفرٹ پہنچ گۓ۔اگلے روز صبح نیویارک جانا تھا۔بریفنگ کے بعد جھاز پر پہنچے تو نیویارک میں طوفان کی آمد تھی۔جسکی وجہ سے دو گھنٹے انتظار کے بعد فلائیٹ کو 24 گھنٹے لۓ موخر کر دیا گیا،اور پیسنجرز اور کریو کو ہوٹل بھیج دیا گیا۔اب تک کا جو تاثر ملا انکی شخصیت کے بارے میں،وہ کچھ اگر زیادہ اچھا بھی نہیں تھا تو برا بھی کسی طور پر نہ تھا۔۔خشک سی طبیعت لگی،خاموش طبع اور پروفیشنل قسم کے آدمی لگے۔۔ہوٹل پہنچ کر کچھ ساتھیوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر باھر گۓ اور واپسی پر طے ہوا کہ کوئ بھی کسی کو فون نہیں کرے گا۔سب آرام کریں گے کیونکہ کال ٹائم پہلے بھی دیا جا سکتا ہے۔ اگر طوفان جلدی گذر گیا۔لمبا قیلولہ ہوا لیکن جب تک رات کے آٹھ بجے آنکھ کھل ہی گئ۔بھوک کا زور بھی محسوس ہوا۔ تو اکیلا تیار ہوکر C.P Plaza ہوٹل سے نکل کر الٹے ہاتھ پر اوپن ایئر فاسٹ فوڈ کے سٹال پر پہنچا تو مقبول ملتان والا موجود تھا اور تھوڑی دیر بعد مرحوم باسط مرزا بھی تشریف لے آیا۔۔کھانے پینے کے بعد اب کیا جاۓ؟ نیند بھی آنے والی نہیں ابھی۔تو پروگرام بنا کہ فرینکفرٹ کے نواح میں ایک مشہور زمانہ کسینو ہے وہاں چلا جاۓ۔ ہم تینوں بس میں بیٹھ کر پہنچ گۓ۔۔تھوڑی دیر کے بعد ایک کسینو کی ملازم لڑکی آکر مجھے جرمن میں کچھ پوچھنے لگی جو میری سمجھ سے باہر تھا۔اور وہ پریشانی کے عالم میں نظر آرہی تھی۔میری نظر اسی پر تھی جو ہر عربی، انڈین یا پاکستانی سے بات کرنے کے بعد کسی اور سے بات کرنا شروع کر دیتی تھی۔چٹھی حس کھڑکھنے لگی۔تو میں نے مقبول سے پوچھا کہ آپ کو کیا کہہ رہی تھی۔اس نے کہا کی کسی شخص کو تلاش کر رہی ہے۔میں نے اسے کہا کہ یہ ہمیں تو تلاش نہیں کر رہی؟ اسکو بھی ہلکا سا جھٹکا لگا اور ہم دونوں ریسپشن پر آۓ۔اور وہاں موجود شخص سے پوچھا جو انگریزی جانتا تھا،کہ آپ کا اسٹاف اندر کس کو ڈھونڈ رہا ہے؟تو اس نے دھماکہ ہی کر دیا یہ کہہ کر کہ ائیر پورٹ پر ایک فلائیٹ کھڑی ہے۔سارے پیسنجر، کیبن کریو سمیت جہاز میں موجود ہیں۔سواۓ کپتان،فرسٹ آفیسر اور فلائیٹ انجینیئر کے۔ اس سے پوچھا کہ کیا نام ہے ائر لائن کااور کپتان کا؟
تو پتہ چلا کہ ایئر لائن تو یاد نہیں لیکن کریو کے نام جو کاغد دیکھکر بتاۓ وہ تھے، شہییید ساحل۔مےقی بل،اور فلائیٹ انجینیئر باسمڑا۔بس دماغ چکرا ہی سا گیا نام سن کر۔اس سے کہا کہ بھائ کوئ اناؤنسمنٹ ہی کر دیتے۔جواب ملا کہ رول اجازت نہیں دیتے۔اسی لۓ ذاتی طور پر اور اخلاقی فریضہ سمجھ کر سٹاف ڈھونڈھ رہا تھا۔ اس سے فون کرنے کی اجازت لی اور ایئرپورٹ فون کیا۔ریاض ٹریفک اسٹاف نے اٹھایا اور ہنستا جاۓ کہ باس، پھڑ ہی لیا نا😝پھر بتایا کہ کچھ پیسنجر آرہے ہیں اور ان میں سے میں کچھ کو باہر لاؤنج میں ہی روک لوں گا آپ شوٹ لگائیں،سو جناب بس کی روانگی دو گھنٹے کے بعد کسینو بند ھونے کے بعد ہونی تھی۔ریسپشن والے سے ٹیکسی منگوانے کی درخواست کی۔5 منٹ میں ایک مرسیڈیز ٹیکسی بمع ترک ڈرائیور حاضر۔اس نے دو سو ڈالر کا تقاضہ کیا۔بغیر حجت کے ٹیکسی میں بیٹھے اور راستے میں اسے رام کہانی سمجھانے کی کوشش کی کہ تیز چلاۓ جو اسکو کچھ سمجھ آئ اور کچھ نہیں۔وہ راستے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور جرمن میں عدنان میندریس کو بچانے کے لۓ بھٹو کی کاوشوں کا ذکر کرتا رہا۔قبرض کی جنگ میں پاک فضائیہ کا کردار بھی بیان کیا۔اور سارے راستے بوتھو یعنی بھٹو مرحوم کی تعریف اور اسکی موت کا افسوس ہی کرتا رہا۔ ہوٹل پہنچے اور جلدی جلدی سامان سمیٹا اور یونی فارم پہن کر واپس آکر بیٹھے تو اب وہ پوری طرح ہماری صورت حال سمجھ گیا،اور انتہائ تیز رفتاری سے اس نے ایئر پورٹ پہنچا دیا۔ترک کاردیس(بھائ یا دوست) کو جب دو سو ڈالر دیۓ تو بھائ نے گلے لگایا اور سو ڈالر واپس کر دیۓ۔ہم بھاگم بھاگ جھاز کی طرف سوٹ کیس اٹھاۓ بھاگے کیونکہ کاؤنٹر بھی بند تھا۔ریاض دی گریٹ ایک پیسنجر اور ایک ویل چیئر کو روک کر لاونج میں ھمارا انتظار کر رہا تھا۔دیکھتے ہی وہ چلانے لگا کہ اب سوٹ کیس جہاز میں لے جاؤ ۔کارگو ہولڈ بند ہو چکا ہے۔اور ہم اب سینئر پرسر اور کپتان کے پٹاخوں کی برسات کے خوف سے ڈرتے ہوے جہاز میں داخل ہونے کے لۓ جیٹ وے میں داخل ہوے۔ اور سینیئر پرسر کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگۓ۔۔سر نیچے کۓ جہاز کے دروازے پر پہنچے تو انہوں نے مڈ گیلی کے ساتھ بڑے کوٹ کمپارٹمنٹ کوخالی کروایا ہواتھا۔اشارہ کیا کہ سامان وھاں رکھ دیا جاۓ۔میں نے سب سے پہلے سوٹ کیس رکھا اور جلدی سے R2 پر جا کر کھڑا ہوگیا۔دونوں نے بھی یہی کچھ کیا اور میرے پاس آکر کلاس کی شروعات ہونے کا انتظار کرنے لگے۔۔اب سینیئر پرسر کی آمد ہوئ اور جمپ سیٹ کھولیں اور حکم ہوا کہ تشریف رکھۓ اور پردہ کھینچ لیا۔سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے۔اب پردے کو کھولا اور گیلی والے کو حکم دیا کہ 3 اورنج جوس کی بوتلیں اور پانی کی بوتل اور 3 گلاس دیۓ جائیں۔جیسے ہی وہ آئیں تو حکم ہوا کہ 3 چاۓ بھی بنائ جائیں ادھر ھم ھلکان کہ بھگو بھگو کے پی ایچ ڈی ہونی ہے آج۔نظریں نیچی تھیں یکایک کندھے پر ہاتھ محسوس ہوا اور اوپر نظر کرنے کی ہمت بھی نہ تھی بس جو سنا وہ یہ تھا۔،ہو جاتا ہے۔Just take it easy and relax.Take your time.I have given the positions,I just needed eight crew which was available and was on board.I have not told any one including Capt about it.After take off work wherever you feel comfortable.اور وہاں سے چلے گۓ۔زندگی میں اتنا لمبا اور گہرا سانس کبھی لیا ہوگا،یاد نہیں۔ جو اس وقت لیا۔۔۔بعد میں پتہ چلا کہ گراؤنڈ سٹاف کو بھی منع کر دیا تھا کہ ہیڈ افس رپورٹ بھی نہ کرنا۔کیونکہ دو روز کے بعد واپسی فرینکفرٹ ہی آنا تھا۔جہاں سے بچہ لوگ نے دوبارہ جوائن کر لینا تھا۔۔۔یاد رہے مارشل لاء 52 کا دور تھا۔آج فیس بک پر ایک دوست جسکا نام سلیم محمد تھا ڈھونڈ رہا تھا۔ایک پروفائل کھل گئ۔ پروفائیل دیکھی تو پتہ چلا کہ سلیم محمد بھی کبھی سینیئر پرسر تھے۔بہت ذہن پر زور دیا کہ کون ہیں؟ تو ذہن میں گھنٹی بجنی شروع ہوئ کہ بھیا یہ تو وہی ہیں۔۔سلیم جوہر۔جنکا نام ہوا کرتا تھا۔اور ساری کہانی بھی یاد آگئی۔فرینڈز لسٹ میں احسان غازی صاحب اور شفقت پہلوان کی تصویریں موجود تھیں،دونوں کو میسج کۓ،ابھی غازی صاحب نے کنفرم کیا کہ آپ نے صحیح پہچانا! تو سوچا کہ دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کرلوں۔کیسے کیسے لوگ آپکی زندگی میں آتے ہیں۔جن سے آپ کا کوئ کسی قسم کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔وہ جلد ہی نوکری چھوڑ کر چلے گۓ تھے۔وہ تو مجھے یقیننا نہیں جانتے ہوں گے۔اور بھول چکے ہوں گے،لیکن جنکی یاد اور توجہ میں آج تک نہ بھول نہیں پایا۔اب بھی تصویر سے بالکل ہی نہ پہچان پایا لیکن انکی اچھائ،حسن سلوک اور باتیں آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔۔۔اللہ پاک جہاں بھی ہیں انکو ھمیشہ صحت مند اورخوش رکھے 40 سال بعد ایک بار پھر شکریہ کہنا تو بنتا ہی ہے۔آمین۔