جہاز کے باتھ روم کی ڈھولکی
آپ اس نوکری کے منفرد اور آزمائیشی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ روز نیا باس، نئی ٹیم اور نئے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ لوگوں کے “نخراجات” بھی ایسے ہوتے ہیں جن پر وہ خود تو کوئی خاص اخراجات” نہیں کرتے لیکن جہاز پر آ کر ان کو سب یاد آ جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات شکایت خالص بھی نکل آتی ہے۔
ایک پرواز کے دوران مجھے دو اصحاب کے برابر ایک صاحب نے منتی اشارے سے بلایا۔ میں نے ان سے دور جا کے مدعا پوچھا ( کیوں کہ قریب جانے کی کوئی خاص جگہ نہیں تھی) تو کہنے لگے کہ میں تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ابھی تو میں نے کتاب لکھی ہی نہیں بس چھوٹے پتلے ( پتلے اس لیئے کہا کہ اس کے متضاد پر برا نہ مان جائیں) کالم لکھ لیتا ہوں لیکن پھر بھی چلیں آپ کا تبصرہ سر آنکھوں پر۔ مجھے لگا میں نے اپنا سب سے بڑا فین ڈھونڈ لیا ہے۔ اور وہ بھی اڑتی پرواز میں۔ انھوں نے میری طرف غور سے دیکھا اور میری تمام تر خوش گفتاری و گمانی کو یک جنبشِ قلم مثل جابر کوتوال کے موقوف کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ برخوردار، تبصرے والی کاپی لے کر آئیے، تا کہ بیت الخلا بارے شکایت درج کی جاوے۔ معلوم ہوا جناب ” کمنٹ کارڈ” حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔
میرے ارمانوں کے ڈرائینگ روم میں چنیوٹ سے درآمد شدہ لکڑی کی میز پر دھرا ملتان کی بلیو پاٹری کا گلدان خوش فہمی ایک دم چھناکے سے ٹوٹ کر جہاز کی راہداری میں بکھر گیا۔ میں نے جلدی سے جا کر اپنے سینئر کو یہ ساری کارستانی ڈی کوڈ کر کے بتائی اور کاپی ہائے تبصرہ لے کر دل میں وائے وائے کرتا ان کے پاس واپس پہنچا۔ کارڈ ان کو دے کر میں نے گیلی (گے-لی) میں واپس آ کر سوچا کہ خدا جانے اب وہ کیا لکھ دیں کارڈ کے اندر؟۔ کہیں میری شکایت نہ ہو جائے؟۔ ہائے پھر کیا ہو گا۔؟ آخر میں نے ہمت کی، سوچا اب جو ہو گا خدا کی مرضی، مجھے ایسے نہیں بیٹھے رہنا چاہیئے۔ چناں چہ میں نے فوراً اٹھ کر اسپیشل چائے بنائی تا کہ ان صاحب کو پیش کر کہ کچھ معاملہ سلجھایا جا سکے۔ چائے اتنی اچھی بن گئی کہ میرا دل للچایا گیا۔ چناں چہ سارا کپ میں خود ہی پی گیا۔ اور پھر ان کی نشست کی طرف چل پڑا۔
خوش قسمتی سے اطراف میں کچھ نشستیں خالی تھیں تو میں نے حد درجہ قریب ہونے کی مکمل ناکام کوشش کر کہ ان سے پوچھا کہ کیا وجہ بنی اس شکایت کی۔ حالانکہ میں نے پورا خیال رکھا تھا کی بیت الخلا میں صابن اور کاغذی تولیے ہمہ وقت موجود ہوں۔ تو پھر کیا شکایت ہے۔ جناب وہ کارڈ تہہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ بھئی آپ کا یہ بیت الخلا بہت چھوٹا ہے۔ بندہ پورا ہی نہیں آتا اس میں تو استعمال کیا خاک کرے گا۔
اب میری سمجھ میں ساری بات آ گئی تھی کہ اصل بات کیا ہے۔ سب سے پہلے میں نے ان سے فوراً معذرت کی جو کہ اس نوکری کو کرنے کا اصول نمبر ایک ہے اور ہنگامی انسانی بنیادوں پر ان کو معذور افراد کے لیئے موجود بیت الخلا کی راہ دکھائی۔ جی ہاں، جہاز میں جو بیت الخلا معذور افراد کے لیئے ہوتا ہے وہ عام بیت الخلا سے نسبتاً بڑا ہوتا ہے لہذا فربہ اندام عوام وہ حمام استعمال کر سکتے ہیں۔ میرا اندازہ صحیح نکلا۔ واپسی پر وہ صاحب اتنا خوش تھے کہ انھوں نے نہ صرف تبصرہ کاپی پھاڑ کر پرزے پرزے کر کے جہاز کی راہداری میں ” پرزہ پاشی ” کی بلکہ میرے سینئر سے لوگوں کی ہیجانی کیفیت بوجوہ حوائج ضروریہ، بر وقت جانچنے کی میری خداداد صلاحیتوں کی تعریف بھی کی۔ اس خوشی میں میں نے ان کے لیئے ایک اور کپ چائے بنائی اور اس بار ان کو بھی دی۔
حمام سے کیا خوب یاد آیا۔ نئی نئی نوکری شروع کی تھی۔ دبئی یا دمام کی پرواز تھی۔ ایک صاحب میری پرسنل سپیس پھلانگتے ہوئے اتنا قریب آ گئے کہ میں نے غیر ارادی طور پر دائیاں ہاتھ ذرا اوپر کو سامنے کی طرف کیا تو وہ سمجھے میں مصافحہ کرنا چاہتا ہوں، جھٹ میرا ہاتھ تھام کر دو کلومیٹر لمبا سلام ٹھوک کر کہنے لگے ” بھائی جان، حمام؟” ساتھ میں ہاتھ کو دبایا اور سورج کی روشنی نہ پانے والے ایمازون کے گھنے جنگلات اور پاکستانی تارکول جیسی چمکتی ہوئی گھنی بھنویں بھی اچکائیں۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں مجھے ایک خیال آیا اور میرے سارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اس سے پہلے مجھے یہی معلوم تھا کہ حمام یا تو محلے کے نائی کی دکان میں ہوتا ہے یا وہ جس میں سب ” پورے لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔”
میں نے بھائی صاحب سے اپنا دبا ہوا ہاتھ واپس لیتے ہوئے ان کو سمجھایا کہ جہاز میں نہانے کا انتظام نہیں ہوتا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ لیکن پھر انھوں نے الفاظ کا دامن چھوڑ کر خود اپنا دامن تھام لیا اور اپنی حرکات و سکنات سے جو مجھے سمجھانے کی کوشش کی وہ سمجھ کر میں اس بار سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں میں نے خود کھڑا کو کر اپنے رونگٹوں کو آرام کرنے کا موقع دیا اور ان کو بیت الخلا کی راہ دیکھائی۔
اب بات چل نکلی ہے تو آپ کو فوکر جہاز کے ڈبی نما بیت الخلا کا قصہ بھی سنا دیا جائے۔ یہ بھی شروع کے ہی دن تھے۔ اسلام آباد سے گلگت کی پرواز تھی۔ ایک دوست بھی ساتھ تھا۔ دوران پرواز اسے تقاضا ہوا تو مجھے بتا کر جہاز کے آخری حصے میں موجود بیت الخلا کو سنوارنے جا پہنچا۔ اچھا فوکر ایک چھوٹا جہاز ہوتا تھا آج کل کے اے ٹی آر کی طرح۔ دو پنکھوں والا۔ اس کی اپنی ہی ایک کمال وحشت ہوتی تھی جس کا ذکر اگلی بار انشاء اللہ۔
تو جناب کیا دیکھتا ہوں تھوڑی ہی دیر بعد میرا ساتھی مضمحل کیفیت سے دوچار واپس آ گیا ہے۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔ کہنے لگا یار ایک تو ہلچل اتنی ہے ( خراب موسم کی وجہ سے ٹربیولینس) کہ بندے کا ارتکاز ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے دوسرا ساتھ ساتھ ڈھولکی بجتی رہتی ہے تو میں تو گانے ہی بوجھتا رہا سارا وقت۔ معلوم ہوا کہ ایک ریک کا پیچ کچھ ڈھیلا تھا تو اس کے مسلسل ہلنے کی وجہ سے میرے ساتھی کو اندر انتاکشری کھیلنا پڑی۔
خاور جمال