صبر کا پھل، “البیک چکن”
کسی بھی پرواز کا مشکل ترین لمحہ مسافروں کی بورڈنگ کروانا ہوتا ہے۔ یعنی سب کو ان کی مقرر کردہ نشستوں پر بٹھانا۔ جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا، “بٹھانا”۔ تو جناب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسافر خود نہیں بیٹھ سکتے نشستوں پر؟ جی ہاں، بالکل بیٹھ سکتے ہیں لیکن غلط بیٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر یہ ایک بہت بڑا امتحان ہوتا ہے فضائی میزبان کے لیئے کہ مسافر جو غلط نشست پر بیٹھ گیا ہے اور اس کے بعد مقرر کردہ نشست کا مسافر وہاں آ جائے تو ان کو اپنی اپنی نشستوں پر بٹھانا۔
ایسی صورتحال زیادہ تر حج اور عمرہ کی پروازوں پر درپیش ہوتی ہے۔ ویسے عام پروازوں پر بھی یہ مسئلہ ہوتا ہے لیکن زیادہ تر ایسا حج کی پروازوں پر ہوتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان پروازوں پر 95 فیصد وہ لوگ سفر کرتے ہیں جنہوں نے پہلی اور شاید آخری مرتبہ ہی جہاز پر سفر کرنا ہوتا ہے۔
فضائی عملے کے لیئے عید شبرات یا اور تہواروں پر گزیٹڈ چھٹیاں نہیں ہوتیں۔ لہذا ان دنوں چھٹی کے لیے خاص طور پر درخواست دینا پڑتی ہے۔ ان درخواستوں کا عمومی طور پر وہی حال ہوتا ہے جیسے کسی شخص کا ڈیبٹ کارڈ چوری ہو جائے اور وہ اپنے بینک فون ملا کر گھنٹوں تک یہی سنتا رہے کہ اس وقت تمام آپریٹرز ” دوسرے ” کسٹمرز کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ اور جس دم آپریٹر مدد کرنے کو فون اٹھاتا ہے، ڈیبٹ کارڈ کسی اور کے کام آ چکا ہوتا ہے۔ نوکری کے شروع کے دنوں میں میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ درخواست دی لیکن آپریٹر نے فون نہیں اٹھایا لہذا بقر عید پر نوکری کرنی پڑی اور اپنے گھر عید منانے نہ جا سکا۔
اب صورتحال یہ تھی کہ چاند رات کو پرواز لے کر جانی تھی اور عید کی صبح واپسی تھی۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ واپسی پر میری حالت اور فلائٹ فل پیک ہونا تھی۔ بتاتا چلوں کہ حج پروازوں کی یہ پالیسی ہوتی ہے کہ جو جہاز حاجیوں کو چھوڑنے جاتا ہے، وہ واپس خالی آتا ہے۔ اسی طرح جو جہاز حاجیوں کو واپس لینے جاتا ہے وہ بھی خالی جاتا ہے۔ ایسا اس لیئے ہوتا ہے کہ حج کے دوران ایک طرف کے مسافروں کی بکنگ نہیں کی جاتی۔ لہذا میں نے بھی واپسی کی فل پیک پرواز کے لیئے ملک پیک کی لسی طہورا بنا کر پی اور عالم غنودگی میں جانے کی مکمل کوشش کر کے بقر عید پر چھٹی نہ ملنے کا غم غلط کرتا رہا۔
نہ ہی غنودگی وارد ہوئی اور نہ ہی غم غلط ہوا۔ لگتا تھا جیسے دہی ماپنے والے پیمانے میں کچھ گڑبڑ ہو گئی تھی ورنہ اسی لسی طہورا سے مجھے گھر پر وہ غنودگی آ گھیرتی تھی کہ جیسے کسی شدید راشی افسر کو “زپنٹو” (رشوت کے لیئے استعمال کیا جانے والا عام فہم لفظ) لیئے بغیر اپنے باس کے ایک فون پر کسی غریب شخص کی فائل کلئیر کرنے پر آتی ہے۔ خیر آرام و سکون سے جدہ پہنچ گئے۔
جہاز کا تیل پانی چیک ہوا اور معزز مہمانان گرامی جہاز میں آنا شروع ہو گئے۔ ایک دم مجھے لگا کہ جہاز کی روشنی میں یکایک اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے میں سمجھا کہ یہ خدا کے نیک بندوں کا نور ہے ( اور تھا بھی اس میں کوئی دو رائے نہیں) لیکن ابھی اس بات پر آدھا سر ہی دھنا تھا کہ اس خیال سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ کہیں یہ لسی طہورا نے اثر کرنا تو شروع نہیں کر دیا۔ پھر اچانک میری نظر سامنے سے آنے والے “تازہ حجاج کرام” پر پڑی۔ میں فوراً “گنجان” حاجی صاحبان کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ روشنی کہاں سے ٹکرا کر پھیل رہی ہے۔ اور پھر وہی ہوا جو میں نے سوچ رکھا تھا۔
چار لوگ اکٹھے بیٹھ گئے جن میں سے دو کی نشستیں جہاز کے اگلے حصے میں تھیں۔ معلوم اس وقت ہوا کہ جب ان دو نشستوں کے مسافر بھی آ گئے۔ اب وہی معاملہ کہ کوئی ہلنے کو تیار نہیں۔ آخر کار اس پرانے لطیفے سے مدد لینی پڑی کہ جس میں فضائی میزبان مسافر کو جہاز کے اگلے حصے میں بیٹھنے کے لیئے یہ کہہ کر راضی کرتا ہے کہ اگلا حصہ پہلے اترے گا۔ اس میں تھوڑا رد و بدل کر کہ میں نے یہ سمجھایا کہ بھائی عید کا رش ہے۔ آپ آگے بیٹھیں گے تو پہلے جہاز سے نکلیں گے اور کسٹم سے جلدی فارغ ہو کر سامان حاصل کر سکیں گے۔ شکر ہے ان کی سمجھ میں آ گیا اور مسلہ حل ہوا۔ وہ اور بات ہے کہ پرواز کے آخر میں مسافروں کو اتارنے کے لیے جہاز کا پچھلا دروازہ کھل گیا اور میں نے ان دونوں کے آنے سے پہلے بیت الخلا کی راہ لی۔ ان کی خون خوار نگاہوں کو کون سہتا اور کیا معلوم کچھ سنا بھی جاتے، سنا ہے حج کرنے کے بعد تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور میٹر پھر سے چالو ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیں اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں۔
ایک حاجی صاحب ہم سے کافی خوش تھے۔ جس کا اندازہ میں نے ان کو ساڑھے سولہ بار چائے دے کر لگایا۔ چائے تو سولہ بار ہی دی تھی مگر “ساڑھے” مجھے مچے ہوئے تھے۔ ارے ارے آپ غلط نہ سمجھیں۔ بھائی میری تو نوکری ہی یہی ہے۔ اصل میں ان کے لیئے چائے بناتا تو ساتھ خود بھی پی لیتا۔ اس وجہ سے سینے میں جلن اور پیٹ میں ایسی گڑبڑ مچی کہ لگتا تھا “سوئی” کا مقام بلوچستان کی بجائے میرے پیٹ میں ہے۔
خیر وہ حاجی صاحب لینڈنگ سے کچھ دیر قبل آئے۔ اتنی تعریف کی کہ مجھے لگا کہ وہ دورانِ پرواز ہی دوستی کو رشتہ داری میں بدلنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن بچت ہو گئی۔ پھر انھوں نے اپنے زنبیل نما تھیلے میں ہاتھ ڈال کر جو باہر نکالا تو ہر سو “باد مرغ کبیرہ” پھیل گئی۔ معلوم ہوا کہ المشہور “البیک چکن” کے چار بڑے پیکٹ ایک تھیلی میں ان کے ہاتھ میں موجود ہیں۔ پتہ چلا کہ وہ اپنے بچوں کی فوج ظفر موج کے لیئے یہ پوری زنبیل البیک چکن سے بھر کر لے جا رہے ہیں۔
صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، یہ تو سنا تھا لیکن آج صبر کا پھل ” البیک چکن” میرے سامنے تھا۔ رسمی انکار صغیرہ کے بعد میں نے وہ “ڈبہ جات مرغ کبیرہ” خندہ پیشانی سے وصول پائے اور ان کو تلقین کی کہ جہاز اترنے والا ہے آپ نشست پر تشریف لے جائیے کہ ہمیں کچھ ضروری کام نمٹانے ہوتے ہیں۔ وہ گئے تو میں نے جہاز کے اگلے حصے میں کام کرتے اپنے دو ساتھیوں کو “نوید مرغ” سنائی اور وہ اڑتے ہوئے جہاز میں اڑتے ہوئے میرے پاس آ گئے۔ ہم نے ضروری کام نمٹائے اور لبیک کہتے ہوئے البیک کے ساتھ انصاف کیا۔ اس پرواز پر معلوم ہوا کہ متعدد لوگ جاتے ہوئے اللھم لبیک کا ورد کرتے ہیں اور واپسی پر البیک کا۔
پرواز اتر رہی تھی۔ لوگوں نے اپنوں کے ساتھ جا کر عید منانی تھی۔ کسی نے بقر عید اور کسی نے بکرا عید۔ کوئی گائے پر چھری پھیرتا کوئی بکرے پر۔ میں نے سوچا بڑی عید پر میں نے تو چھوٹا گوشت کھا لیا ہے لہذا اپنی گردن میں نیند کے حوالے کر دیتا ہوں۔ ڈراپ میں بیٹھ کر واپس جاتے ہوئے کیا دیکھتا ہوں کہ شہر کے ندی نالے خون سے بھر چکے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ قربانیاں شروع ہو گئی ہیں۔ گھر والوں کو فون کر کہ عید کی مبارک دی اور عید کی صبح ضروری کام سے سو گیا۔
خاور جمال