Article by Khawar Jamal, Ex Crew. Posted by Abid Khalil

فوکر کے ہچکولے اور شلپا شیٹھی

کبھی آپ نے جم میں اس لڑکے کو دیکھا ہے جو وزن پانچ کلو اٹھاتا ہے لیکن شور اتنا مچاتا ہے جیسے دو سو کلو کی پلیٹ اٹھا رکھی ہو۔ یا اس چنگچی رکشے کو تو دیکھا ہی ہو گا جس کی ریس اتنی دی ہوتی ہے کہ فارمولہ ون میں چلتی فراری بھی شرما جائے۔ یا پھر اگر ہنڈا ون ٹو فائیو موٹر سائیکل کا سائیلینسر نکال کر چھوٹا سائیلینسر لگا دیا جائے تو پھر اسے تیز دوڑا کر رفتار ایک دم کم کرنے سے جو ” گھاوووںںں” کی آواز آتی ہے اسے کئی ہزار ڈیسیبل تک بڑھا دیا جائے تو وہ فوکر ہوائی جہاز کے انجن کی آواز بن جائے گی۔

بچپن میں جو گرمیوں کی چھٹیاں نانی کے گھر جا کر نہ منائے اس کی زندگی کا مقصد فوت ہے۔ لیکن ہمیں یہ مقصد پورا کرنے کے لیئے تھوڑا بہت ” فوتنا” پڑتا تھا کیونکہ ہمارا ننھیال پشاور میں ہے اور ملتان سے پشاور پہنچنے کے لیئے اسی فوکر جہاز کی پرواز جو ملتان سے ژوب، وہاں سے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر پشاور جاتی، لینی پڑتی تھی۔ ان تمام علاقوں میں موسم گرما کا اوسط درجہ حرارت” نقطہ پگھلاہٹ ہائے انسانیہ” سے دو تین درجے کم ہی ہوتا ہے لہٰذا ہم لوگ بچتے بچاتے، فوکر کے کیبن اور جہاز کے ایندھن کی مشترکہ ٹریڈ مارک ” باد سموم” جو نتھنوں سے داخل ہو کر شعور اور لاشعور کو قریب از مرگ پہنچا دیتی، کو جھیلتے ہوئے سفر کرتے۔

ہر سفر میں یہی دل کرتا کہ یہ جہاز بائے روڈ ہی چلتا ہوا منزل پر پہنچا دے۔ اس جہاز کے پنکھے ( پروپیلرز) رواں ہونے لگتے تو مائیں بچوں کو اپنی آغوش میں داب لیتیں، چرند پرند اپنے آشیانوں میں چھپ جاتے یہاں تک کہ جوانوں کے دل دہل جاتے اور وہ اس “کافرانہ موسیقی” سے بچنے کے لیئے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے۔ اس کے بعد یہ شاہ زادہ اک شان بے نیازی سے رن وے پر لڑھکتا ہوا محو پرواز ہو کر فضا میں اتنے ہچکولے کھاتا کہ میزبانوں سمیت مسافروں کے اجسام کی اناٹومی تہس نہس کر جاتا۔ اس سے دل اور کچھ اور اعضاء وغیرہ کا حلق میں آ جانا مراد ہے۔

قسمت نے اپنے آپ کو دہرایا اور جس جہاز کے اندر میں نہ چاہتے ہوئے بھی سفر کرتا تھا، اس جہاز میں مجھے لوگوں کی میزبانی کرنا پڑ گئی۔ شروعات کی پروازیں بہت مشکل تھیں۔ وہ تو شکر ہے اس جہاز اور آج کل کے اے ٹی آر جہاز پر دو فضائی میزبان موجود ہوتے ہیں ورنہ سارے معزز مہمانان گرامی کو مل کر اس ناچیز میزبان کا خیال رکھنا پڑتا اور میزبان مہمان بن جاتا۔

نوکری کا پہلا پورا سال اسی فوکری دشت کی “سیاحی مع سیاہی” میں گزرا۔ نام اس جہاز کا فوکر فرینڈ شپ تھا مگر میری ہمیشہ سے دشمنی ہی رہی۔ کوئی پوچھتا کہ آج کون سی پرواز پر جا رہے ہو تو بے اختیار منہ سے فوکر “کی” کے بجائے فوکر “قے” پرواز پر جا رہا ہوں نکلتا۔ جس طرح رانجھے کے لیئے ہیر، سموسے کے ساتھ لال چٹنی اور شہر میں چلتی لوکل بسوں میں پریشر ہارن ہونا لازم و ملزوم ہیں، اسی طرح فوکر کی پرواز میں قے کرنا ایک فطری عمل ہے۔

ملاحظہ فرمائیں کہ فوکری پروازوں کے سیکٹر یہ تھے۔ اسلام آباد سے چترال، چترال سے اسلام آباد۔پھر اسلام آبادسے چترال، چترال سے اسلام آباد۔ اس کے بعد اسلام آباد سے پشاور۔ یہ ساری پروازیں ایک ہی دن، ایک کے بعد ایک کرنی ہوتی تھیں۔ انہیں پروازوں میں کسی دن چترال کی جگہ گلگت جانا ہوتا تھا۔ اکثر چترال یا گلگت پہنچ کر پکوڑے اور سموسے کھانے والا موسم ملتا لیکن میں خود اس وقت خمیرے بیسن کا پکوڑا بنا رن وے پر چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے اندر کے طوفان کو براستہ منہ باہر آنے سے روکنے کے لیئے تازہ ہوا پھیپھڑوں میں بھر رہا ہوتا تھا۔

بھارتی اداکارہ شلپا شیٹھی کو تو آپ لوگ جانتے ہوں گے۔ ان کا ایک مخصوص ڈانس سٹیپ ہے۔ ایک ہاتھ اونچا کرتی ہیں اور دوسرا ہاتھ اپنے پہلو زہد شکن پر رکھ کر وہ تغیر ہوشربا پیدا کرتی ہیں کہ دیکھنے والے سانس لینا بھول جاتے ہیں۔ بس، فوکر جہاز کی خراب موسم میں ٹربیولینس ایسی ہی ہوتی ہے۔ سمجھ لیں کہ جہاز کسی طرح شلپا شیٹھی کے پہلو زہد شکن سے جا لگا ہے اور تغیرات ابر سیاہ میں پھنس گیا ہے۔ وقفے وقفے سے بجلیاں بھی کڑک رہی ہیں اور سامعین یعنی کہ مسافر سانس لینا بھول گئے ہیں۔ یا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا بھی اوپر ہی آ رہتا ہے۔

ایسے موسم میں جہاز زمین پر نہیں اتر پاتا لہذا پرواز کا رخ واپس اسلام آباد کی جانب موڑنا پڑتا تھا۔ چوں کہ اس پرواز میں دو مرتبہ گلگت یا چترال جانا پڑتا تھا لہذا موسم کی خرابی کے باعث دوسری پرواز اکثر موقوف کر دی جاتی جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ راوی کو دوسری مرتبہ قے کرنے سے چھٹکارا مل جاتا اور ایک بار ہی صفائی کرنی پڑتی۔ یہ غم وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے فوکر میں سفر کیا ہو۔

پشاور کی پرواز چلنے کو تیار تھی۔ ایک صاحب نے مجھے بلایا اور کہنے لگے “بھائی جان پھنکا نہیں چھل را” میں نے ان کی نشست کے اوپر موجود ائیر وینٹ کو ان کی طرف کر دیا اور چلتا بنا۔ تھوڑی دیر بعد بورڈنگ کرواتے ہوئے پھر ان کے پاس سے گزرا تو وہی بات دہرائی انھوں نے۔ میں نے کہا سر پنکھا چل رہا ہے۔لیکن وہ اسی بات پر مصر تھے کہ پنکھا چلاو۔ چوں کہ میں بھی انسان ہوں تو آخرکار پوچھ بیٹھا کہ لالا کون سا پنکھا چلا دوں اب، تو وہ کھڑکی سے باہر ( جہاز کے پروپیلر کی جانب) اشارہ کر کے کہنے لگے یہ والا بڑا پھنکا چلاو ہم کو زیادہ ہوا چاہیئے۔ میں نے ان کو تسلی دی کہ بس ابھی یہ چلا کر آتا ہوں لیکن پوری پرواز میں ان پر نظر رکھی کہ زیادہ ہوا لینے کے چکر میں کھڑکی نہ کھولنے کی کوشش کر بیٹھیں۔

ایک سال مسلسل اس جہاز پر کام کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ پھر خراب موسم میں جب بھی کوئی بھی جہاز پھنسا، حالت غیر نہیں ہوئی۔ مسافروں کی تسبیح چل رہی ہوتی تھی اور میرا چمچ۔ یعنی اکثر ایسا ہوتا کہ میں کھانا کھانے لگتا تو جہاز ہچکولے کھانے لگتا، گویا میرا کھانے اور جہاز کے ہاضمے کا وقت ایک ہوتا۔ سب کو اپنی اپنی نانی یاد آ رہی ہوتی اور مجھے بریانی۔ بس یہی پرواز کے دوران کچھ آرام کا وقت میسر آتا۔ ہچکولے بند ہوتے، اوراد رک جاتے اور مہمان نوازیاں شروع ہو جاتیں۔

خاور جمال