ایفل ٹاور کی تلاش اور فرانسیسی لہجے۔
ایک دن کسی کام سے دفتر پہنچا۔ اندر داخل ہوا تو ایک ساتھی کی آواز سنائی دی کہ ” مجھے چھٹی چاہیئے، میں نے پیرس پورس نہیں جانا”۔ میں نے آگے بڑھ کر اس شخص کی شکل دیکھنا چاہی کہ یہ کون گناہ گار ہے جو خوشبوؤں کے دیس جانے سے انکاری ہے۔ ان کے رو اسودی اور باس گندھکی سے یہ بات مجھ پر فوراً عیاں ہو گئی کہ یہ واقعی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ افسر صاحب مصر تھے کہ عملہ کم ہے تمھیں جانا پڑے گا۔ میں نے مسکین سا منہ بنا کر اسی لمحے عرضی داغ دی کہ اگر ان کی جگہ فدوی کو پیرس بھیج دیا جائے تو سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ یہاں میں نے اپنے آپ اور ان افسر کو سانپ نہیں کہا۔ مزید عرض یہ کی کہ اگلے 4 دن کوئی نوکری نہیں ہے چناں چہ سٹینڈ بائے ڈیوٹی کی اذیت اکبری سہنے سے بہتر ہے بندہ سرکار کے کام آوے۔ دو لوگوں کا کام بن گیا، شیطان مردود نے کف افسوس ملا اور میں پیرس جانے کی تیاری کرنے کے لیے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
پرواز سے ایک دن پہلے سوچا کہ فرانسیسی زبان کے کچھ الفاظ بھی سیکھ لینے چاہئیں۔ ایک لفظ تو گاڑی میں ایندھن بھرواتے وقت ہی سیکھ لیا جو پیٹرول پمپ کے اوپر لکھا تھا۔ “بووثوں” ۔ مطلب ییلو ہائے کا مسلہ تو حل ہوا۔ اس کے بعد شکریہ ادا کرنا ہو تو “میخ-سی” کا لفظ سامنے آیا۔ اس کو ویسے لکھا “مرسی” جاتا ہے۔ ان الفاظ کو یاد کرنے کے لیئے میں نے یہ کیا کہ “بوٹوں” کی طرز پر پہلا لفظ ذہن میں محفوظ کیا اور دوسرے لفظ کے لیئے استاد غلام علی خان صاحب سے دل میں معذرت کر کہ ان کی گائی ہوئی غزل کا مصرع مستعار لے کر تبدیل کیا کہ “دل میں اک میخ-سی چبھی ہے ابھی”۔
پرواز کے دن جہاز پر پہنچے اور مسافر آنا شروع ہوئے۔ حسب معمول کوئی ایک بھی فرانسیسی مرد وزن نظر نہ آیا اور تا حدِ نگاہ دیسی عوام کو ہی ہم سفر پایا۔ ابھی بورڈنگ جاری تھی کہ ایک مسافر اپنے آتش فشانی معاملات لے کر بیت الخلا کی باریابی کا مشتاق ہوا۔ میں نے بہت سمجھایا کہ کچھ دیر انتظار کر لو کیونکہ پانی کے ٹینک پرواز کے بعد چالو ہوتے ہیں مگر وہ تباہی کے دہانے پر تھا۔ مجبوراً اجازت دینا پڑی۔ واپسی پر مجھے مسکرا کر “میسی” کہہ گیا حالانکہ مجھے فٹ بال کے کھیل سے کوئی رغبت نہیں۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بیت الخلا ایسا “میسی” (messy) کر کے گیا کہ پھر صاف کروانا پڑ گیا۔ اور اپنی طرف سے وہ مجھے “میخ-سی” کہہ کر گیا تھا یعنی شکریہ۔ بندہ اہل زبان نہ ہو تو سارا تلفظ “میسی” ہی ہو جاتا ہیں۔
دورانِ پرواز میں نے اپنے ایک سینئیر ساتھی سے پوچھا کہ فرانسیسی زبان سیکھنا کیسا ہے۔ وہ بولے پہلے یہ بتاؤ تم “عین غین” کے معاملے میں کیسے ہو۔ یہ سنتے ہی مجھ سمیت میرے سارے رونگٹوں نے سانس زور سے اوپر کھینچ کر سوالیہ صورت بنائے ان کو دیکھا اور ساتھ ہی مجھے شام کو چھپنے والے سستے سے اخبار کی ایک عدد گھٹیا اور غیر معیاری خبر بھی یاد آئی۔ یہ تاثرات دیکھ کر وہ گویا ہوئے کہ بھئی میرا مطلب یہ تھا کہ عین غین کی آوازیں بہت ہیں اس زبان میں اور اس کے بعد “زال” کی آواز کو بھگتانا پڑتا ہے۔ پھرخاص طور پر “خ” کی آواز تو ایسے نکالنی پڑتی ہے جیسے عالم نزع کے دوران کوئی شخص بلغم فرسودہ تھوکتا ہوا جان کی بازی ہار بیٹھا ہو۔ میں نے ان کو تسلی دی کہ “زال” کی آواز کو بھگتنا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، پوچھنے لگے ایسا کیسے ممکن ہے۔ میں نے ان کو بتایا کہ ہماری سرائیکی زبان میں بیگم کو زال کہا جاتا ہے۔ اس بات پر انھوں نے زور سے سانس اوپر کھینچ کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پرانی فلموں کے ولن کی پتلی لکیر مونچھوں کی ہم شکل بھنویں اچکائیں اور مجھے مبارک باد دی۔
خیریت سے سفر گزر گیا اور پیرس پہنچ گئے۔ چارلس ڈیگال ائیرپورٹ اتنا آسان اور سہل انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے جتنا کہ آرٹس کے طالبِ علم کے لیے کوانٹم فزکس۔ ایک مرتبہ بس آپ دائیں کی بجائے بائیں جانب مڑ جائیں تو کسی خوفناک انگریزی فلم کی طرح ایسی بھول بھلیاں شروع ہو جاتی ہیں جن کے ہر موڑ پر آپ کو لگتا ہے کہ راستہ تو بالکل صحیح ہے لیکن باہر کہاں سے نکلنا ہے۔ اس لیے تمام عملے کو ہدایت کی گئی کہ سب بمپر ٹو بمپر چلیں گے تا کہ کوئی گم نہ ہو جائے۔ اتنا بڑا ہوائی اڈا ہونے کے باوجود عمارت ایسی ہے جیسے کسی امیر آدمی نے گھر بنوا کر پینٹ کروانے سے پہلے چھوڑ دیا ہو۔ زیادہ تر صرف سیمنٹ کا لیپ ہوا نظر آتا ہے۔ شاید معماروں نے آرٹسٹک زاویہ سے یہی بہتر سمجھا ہو گا۔
ہوٹل ائیرپورٹ سے قریب ہی تھا۔ کمرے کی کھڑکی سے پردہ ہٹایا تو بہت دور المشہور کھمبا فرانسیسی کا ہیولا نظر آیا۔ میں نے کھڑکی سے ہی ایفل کو بڑک ماری کہ “پیراں دی مٹی نہ چھڈیں ، میں کل آساں”، اور اپنے پیروں کہ مٹی چھڈ کہ بستر پر دراز ہو گیا کیونکہ ایفل ٹاور نے تو کہیں نہیں جانا لیکن میں لمبی نوکری کر کے آیا تھا اور نیند ضروری تھی کہ اٹھ کر آپ لوگوں کو باقی قصہ بھی تو بتانا ہے۔
صبح اٹھا تو محسوس کیا کہ آرام ابھی مکمل نہیں ہوا لہٰذا ناشتہ کرنے کے بعد ایک ضروری کام سے دوبارہ سو گیا۔ ایک سینئر ساتھی جو میری ہی طرح پہلی مرتبہ پیرس آیا تھا، کے ساتھ گھومنے کا پروگرام بنایا۔ تیار ہو کر نیچے آیا اور استقبالیہ پر موجود خاتون سے راستے معلوم کرنے کے بارے میں مدد چاہی۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ میری بات کا جواب کوٹ پینٹ میں ملبوس دوشیزہ نے “اوئی” دیا۔ ایک لمحے کو تو میں گھبرا گیا کہ کہیں ان کو میری بات “چبھ” تو نہیں گئی۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ موئی فرانسیسی میں “ہاں” کو “اوئی” کہتے ہیں۔ وہ بھی لکھتے” oui” ہیں، پڑھتے اوئی ہیں، اور سمجھ اکثر “وی” آتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے جب ان کے یہاں کسی گھر میں رشتہ پکا ہوتا ہوگا تو سارے گھر میں “اوئی اوئی” کا شور مچ جاتا ہوگا۔
انھوں نے ہمیں بتایا کہ پہلے بس پکڑ کر آپ سب سے بڑے بس اسٹاپ پر پہنچیں جس کا نام ” گیاغ دو ناغ” ہے۔ اس کے بعد نزدیکی ٹرین اسٹیشن سے گلابی لائین پکڑیں جو آپ کو المشہور محراب ” آخ دی تھیں-اوف” پہنچا دے گی۔ اس کے بعد وہاں سے شانزے لیزے شروع ہوگی جو آپ کو یہاں تک پہنچا دے گی، اور اس کے ساتھ ہی اس مہ جبیں نے ایفل ٹاور پر انگلی رکھ دی۔ یہ معلومات لے کر ہم نے رخت سفر باندھا اور پیرس کی گلیوں میں نکل پڑے۔
سفر اور زبان دونوں کی مشکلات سہتے ہوئے آخر کار ہم شانزے لیزے پہنچ گئے۔ ایک جگہ وہ گلابی ریل کی لائن ہمیں ورغلا کر کسی اور سٹیشن پر اتار گئی جس کی وجہ سے ہمیں تھوڑی دیر اور ہوگئی۔ جس زیر زمین ریلوے اسٹیشن سے ہم باہر نکلے اس کے بالکل سامنے ہم نے “آخ دی تھیں-اوف” کو پایا۔ محراب کے اطراف 12 سڑکیں نکلتی ہیں۔یہ فرانس کی عظیم تاریخ کا نشان ہے اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے فرانسیسی انقلابی جنگ اور نپولین جنگ میں ملک کے لیے جنگ کی اور مرے۔ آسٹیلر ڈیزائن کا ڈھانچہ 12 لین آرک ڈی ٹریومفے چکر کے بالکل درمیان میں واقع ہے ، جو پیرس کے مصروف ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہی گھومتے ہوئے پیرس کا سب سے بڑا چوک ” پلاس ڈی لا کنکارڈیا” دیکھا۔ اس کا نام لکھتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے کوئی ورکشاپ میں کام کرتا ہوا استاد اپنے نکمے چھوٹے کو کہہ رہا ہو کہ ” پلاس وی لا _” یہاں آپ حسب ذائقہ لفظ فٹ کر لیں۔
پیرس کے ائیرپورٹ کی طرح ہم ان بارہ سڑکوں کی بھول بھلیوں میں اس طرح گم ہوئے کہ ہمیں اپنی منزل مقصود ایفل ٹاور کہیں نظر نہ آ رہا تھا۔ جس کسی سے ہم ایفل ٹاور کا پوچھتے وہ نفی میں سر ہلا کر راستہ بدل لیتا حالانکہ ہماری شکلیں مانگنے والوں جیسی بھی نہیں تھیں۔ آخر کار ایک بینچ پر بیٹھے اکیلے بوڑھے فرانسیسی کے قریب جا کر اس سے ایفل ٹاور کا پتہ پوچھا۔ اس نے دھیرے سے سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور پھر اس کی آنکھیں ایسے پتھرا گئیں جیسے ہم نے ریموٹ کنٹرول اس کی طرف کر کے “پاز” کا بٹن دبا دیا ہو۔ جب اس کا “پاز” مشہور اداکاوں توقیر ناصر اور طلعت حسین صاحب کے پاز ٹائم سے تجاوز کرنے لگا تو میں نے جلدی سے نقشہ کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا اور ایفل ٹاور کی طرف اشارہ کیا۔ یہ دیکھتے ہی اس نے ایک لمبی سی ” آ” کی اور بلند آواز سے “تھوور دی اے-فیل” کہا جس سے اس کی دانتوں سے عاری بتیسی سے جو فوارہ نکلا اس سے بچنے کے لیئے مجھے مشہور فلم “دی میٹرکس” کے ہیرو جیسی لچک دکھانی پڑی۔ اس دوران میرے منہ سے بھی کچھ الفاظ نکلے جن میں لفظ “دی” کا خاطر خواہ استعمال تھا لیکن شکر ہے نہ بابے کو پنجابی آتی تھی اور نہ مجھے فرنچ۔ بہرکیف اس نے جو راستہ اشاروں سے سمجھایا اس سے ہم ایفل ٹاور پہنچ گئے۔
بابا ایفل کا مشہور مینار آہن ہمارے سامنے تھا۔ پھر ہم نے ٹکٹ خرید کر اس کی اوپری منزل کی سیر کی اور وہاں سے شہر کا نظارہ کیا۔ ہماری اگلی منزل “لوو غار’ کا عجائب گھر تھا۔ 13 یورو کی ٹکٹ خرید کر ہم نے لیونارڈو ڈاونچی کے مشہورِ زمانہ شاہکار”مونا لیزا” کا نظارہ کیا۔ معلوم نہیں وہاں بھی اصلی تصویر تھی یا نہیں خیر ہم نے تو اصلی مان کر دیکھ لی۔ باقی اور بھی پرانی نودرات وہاں موجود ہیں۔ مصر پر مختص حصہ مجھے خاص طور پر بہت پسند آیا۔ ایسے ہی چھت پر نظر پڑی تو میں حیران رہ گیا کہ لوگ آرٹ کے نام پر غربت کا کتنا اچھا نقشہ کھینچ گئے ہیں کیوں کہ میں نے “برہنہ سر” تو سنا تھا، “برہنہ چھت” پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔
عجائب گھر دیکھنے کے بعد واپس ہوٹل کی راہ لی کہ شام ہونے لگی تھی اور واپسی کا سفر بھی کافی زیادہ تھا۔ مزید برآں یہ کہ گردن میں بھی کافی درد ہو رہا تھا۔
خاور جمال