Article by Khawar Jamal, Ex Crew. Posted by Abid Khalil

لندن والی قسط کا دوسرا حصہ

لندن کی پرواز پر میں سروس کے بعد درجہ اول سے درجہ سوم کی گیلی (گے-لی) میں کسی کام سے آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو پری زاد حسینائیں جامہ چست میں ملبوس انتہائی سست روی کے ساتھ اپنے جسم کو اردو حروف تہجی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ کبھی کمر بالکل سیدھی کر کے الف بن جاتیں۔ پھر سر کو ذرا خم دے کر میم اور بعد ازاں فرش پر لیٹ کر بغیر نقطے کے بے بننے کی مشق کرتیں جو کہ ظاہر ہے نا ممکن تھا۔ میرے ساتھی اس وقت مسافروں کی خدمت میں مصروف ہونے کی وجہ سے وہاں موجود نہیں تھے ورنہ ان دونوں کو ضرور منع کرتے کہ مسافروں کا گے-لی میں آ کر ایسا کرنا ممنوع ہے۔

بعد میں جب یہ تمام قصہ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تو انھوں نے حسد ظاہر کیا جس کا اثر میں نے فوراً معوذتین پڑھ کر زائل کر دیا۔

یہ سب کرنے کے دوران ان مہ جبینوں کی نظر مجھ پر نہیں پڑی جس کا میں نے شکر کیا ورنہ میری جبیں پر پسینہ تیرنے لگتا۔ جب جلوہ حسن فرنگ میری آنکھوں کو خیرہ کر چکا تو میں نے آگے بڑھ کر ان کو روکا۔ انھوں نے انگریزی میں کہا کہ ہم بیٹھ بیٹھ کر تھک گئے تھے اس لیئے یوگا کرنے یہاں آ گئے۔

 شکر ہے میری اردو اچھی ہے اس لیئے میں نے ان کو انگریزی میں جو سمجھایا وہ ان کی بالکل سمجھ میں نہ آیا۔

چناں چہ میں نے ان کو انگلی سے اشارہ کیا۔ جی ہاں آپ بالکل ٹھیک سمجھے، حفاظتی بند باندھنے کے نشان کی طرف۔ ہر انسان کو اپنے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ مجھے بھی معلوم تھا کہ میں دو حسیناوں کو بیک وقت اشارہ نہیں کر سکتا کیوں کہ میں اپنی “ہمت” کا خاطر خواہ ادراک رکھتا تھا، لیکن میں اس وقت وردی میں تھا اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وردی میں بہت طاقت ہوتی ہے تو میرا اشارہ فوراً سمجھ گئیں۔

یہ اشارہ ان کی جان بچانے کے لیئے تھا کیوں کہ دیکھیں نا اگر اس الف بے پے کے کھیل کے دوران جہاز کو جھٹکا لگے اور یہ دوشیزائیں چھت سے لگ کر فرش پر آ گریں اور کسی اسپیشل گوند سے چسپاں سٹیکر کی مانند ہو جائیں تو کون ذمّہ دار ہوگا۔ اس لیئے اڑتے جہاز میں بغیر کسی وجہ کے نشست سے نہیں اٹھنا چاہیئے اور حفاظتی بند باندھ کر بیٹھنا چاہیئے۔

ویسے یہ بھی شکر ہے کہ اڑتے جہاز میں انجن کا شور ہوتا ہے۔ عملے کی کچھ نشستیں بیت الخلا کے قریب ہوتی ہیں تو بچت یہ ہوتی ہے کہ اندر جو نالہ بلبل اور آہ و زاریاں چل رہی ہوتی ہیں ان کے صوتی اثرات سے عملہ محفوظ رہتا ہے کیوں کہ عوامی اور کچھ دفتری بیت الخلا اس قدر پرسکون ہوتے ہیں کہ کہیں سے دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی بمباری سنائی دیتی ہے تو کہیں لگتا ہے کہ کوئی صدا کار اسی سیشن میں “پدما شری” ایوارڈ لے کر جائے گا۔

ایک مرتبہ میں بیت الخلا میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ میری نظر انتہائی ضرورت مند مسافر پر پڑی جو اسی وقت وہاں نمودار ہوئے تھے۔ میں نے اخلاقاً ان کو جانے دیا۔ وہ اتنی چست کاری سے اندر داخل ہوئے کہ دروازہ بند کرنے اور چٹخنی لگانے کی آواز ایک ہو گئی۔ میں نے کچھ اور کام نمٹائے۔

 تقریباً پندرہ منٹ بعد نکلے۔ بہت خوش تھے۔ مجھے “اخراج عقیدت” پیش کیا اور نشست پر جا بیٹھے۔

اکثر مسافر کھانے کی سروس کے بعد سگریٹ نوشی کے لیئے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کو بائیس سو امریکی ڈالر جرمانے اور باقی مسافروں کی جان خطرے میں ڈالنے پر مفت میں ملنے والی مزیدار کڑی سزا کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو وہ بخوشی ایک سگریٹ کے بجائے ایک کش پر راضی ہو جاتے ہیں اور وہ بھی عملہ کسی صورت ان کو لگانے نہیں دیتا کیوں کہ ایک تو یہ کام سختی سے منع ہے اور دوسرا اگر کسی نے کش لگا لیا اور کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو تمام مسافروں کے لگ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

یہاں سگریٹ کے کش مراد ہے۔

خیر ایک پرواز پر حسب معمول ایک صاحب کو شدید طلب ہو رہی تھی اور ہم کسی جابر حکمران کی طرح ہر بار ان کے پوچھنے پر نفی میں سر ہلا دیتے تھے۔ بس پھر وہی ہوا جس کا ڈر نہیں تھا۔ ایک مرتبہ آ کر میرا ہاتھ پکڑا، اپنا منہ بھینچا اور بھائی جان کہتے ہوئے فرش پر بیٹھ گئے۔ دوسرے ہاتھ سے سر پکڑا ہوا تھا۔ابھی میں اور وہاں موجود میرے دو ساتھی ان کی حالت سمجھنے کا اندازہ کر ہی رہے تھے کہ ایسی آواز آئی جیسے ۔۔۔۔

جیسے بارات میں بجتے ہوئے پرانے ٹرمپٹ کے اندر کسی بے سرے نے پوری طاقت سے پھونک ماری ہے اور اس کے بعد وہ پاس پڑے بجری کے ڈھیر پر گر پڑا ہے۔

اس کے ساتھ ہی جہاز کی پہلے سے ری سائیکل ہوتی فضا میں باس شوریدہ پھیل گئی۔ ہمارے نتھنے جل گئے۔ ایک ساتھی “تینوں لووے مولا” کہتے ہوئے جہاز کے اگلے حصے میں چلا گیا۔

وہ باد شر انگیز ان کے دماغ میں گھومنے کے بعد روشنی کی رفتار سے ان کی تیسری آنکھ کو کھولتے ہوئے ہماری قوت شامہ کو بھسم کر گئی لیکن کیا کریں کہ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔

مقاماتِ گناہ کی کشش تو انسان کو ہر جگہ کھینچ لیتی ہے۔ ایک دوست نے کہا قصبہ کیمڈن آ جاؤ تا کہ ساری رات مل کر “انگریزی تہذیب و تمدن کے نوجوانوں پر برے اثرات” کے موضوع پر تبصرہ کیا جا سکے۔ میں نے دوسری بات ہی نہیں سنی اور بذریعہ لال بس مقررہ مقام پر وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ لیکن خیر جب سیمینار شروع ہوا تو حاضرین محفل نے ناچ ناچ کر وہ تبصرہ کیا کہ بیان سے باہر۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ نوجوانوں نے بھرپور حصہ لیا اور نوجوانیوں کا حق ادا کیا۔ بھرپور شرکت کی بدولت کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ تھکا “جیتا” واپس کمرے میں پہنچا تو جلد ہی نیند آ گئی کیوں کہ ایک تو جی ایم ٹی اور دوسرا تبصرہ کچھ زیادہ ہو گیا تھا۔ 

خاور جمال