Article by Khawar Jamal, EX Crew. Posted by Abid Khalil

کیا آپ فضائی میزبان بننا چاہتے ہیں؟

اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو میرا مشورہ ہے کہ پہلے آپ کسی فضائی میزبان سے سلام دعا رکھیں اور اس نوکری کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔ ہمارے یہاں ایک بہت بڑا مسلہ کیریئر کاونسلنگ کا بھی ہے۔ بچوں کو وہ پڑھنے نہیں دیا جاتا جس مضمون میں ان کا رجحان ہوتا ہے۔ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو ایسی نوکریاں کر رہے ہیں جس سے ان کی حاصل کردہ ڈگری کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجہ نوکریوں کا نہ ہونا بھی ہے لیکن بات کہیں اور نکل جائے گی۔

ڈاکٹر بننا ہے تو میڈیکل کی پڑھائی کرتے کرتے لگ پتہ جاتا ہے کہ طب کی دنیا کے کیا معاملات ہیں۔ اکاؤنٹس اور فائنانس کی پڑھائی کرنے کے بعد اگر بینک یا کسی مالیاتی ادارے میں نوکری لگے تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اندرونِ خانہ کیا کارستانیاں کرنی پڑیں گی۔ اسی طرح بہتر ہوتا ہے کہ اگر روزگار حاصل کرنے سے پہلے اس کے بارے میں پڑھ لیا جائے یا چھوٹی موٹی انٹرن شپ کر لی جائے تو اور اچھا ہوتا ہے۔

فضائی میزبان جس کو انگریزی میں کیبن کریو یا فلائیٹ اٹینڈنٹ کہا جاتا ہے، بننا اور اس کو بطور پیشہ اپنانا باہر تو نہیں لیکن ہمارے ملک میں انوکھا سمجھا جاتا ہے۔ انوکھا اس لیئے کہ ہوائی سفر کے بارے میں ہمارے یہاں لوگوں میں زیادہ ادراک نہیں پایا جاتا۔ اگر کسی کو بتائیں کہ آپ کسی فضائی کمپنی میں کام کرتے ہیں تو جھٹ سے سب لوگ ٹکٹوں کی قیمتیں پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر اگر آپ یہ بتا دیں کہ آپ فضائی میزبان یا کیبن کریو ہیں تو سر تا پا “ہیں؟” کی شکل بن جاتے ہیں۔ بعد میں خلاصی اس بات پر ہوتی ہے کہ

“اچھا! تو آپ ائیر ہوسٹل ( ائیر ہوسٹس) ہیں بیٹا!؟

دولت، سیر سپاٹا اور عیاشی کی چکا چوند سے بھرپور زندگی کی عکاسی کرتی اس نوکری کے پیچھے ایسے ایسے عوامل کار فرما ہیں جو دانتوں سے پسینے کی “نکاسی” کروا دیتے ہیں۔ یہ وہ نوکری نہیں جو لوگ 9 سے 5 بجے تک کرتے ہیں۔ اس میں نوکری کا دورانیہ 12 گھنٹے سے تجاوز کر کے 18 گھنٹے تک جا سکتا ہے۔ نیند قربان کرنی پڑتی ہے اور سماجی تعلقات اور روابط کو خیر آباد کہنا اور “غیر آباد” رکھنا پڑتا ہے۔

ایک فضائی کمپنی اس نوکری کے لیئے درخواست دینے والوں کو عموماً 5 سے 7 مہینوں میں جواب دیتی ہے۔ ایسا اس لیئے ہوتا ہے کہ فضائی میزبانوں کی بھرتی کے لیئے اگر 5000 آسامیاں ہوں تو اس پر 10 سے 15 لاکھ درخواستیں جمع کرائی جاتی ہیں۔ اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ۔ پھر انٹرویو لیئے جاتے ہیں جو کہ دو سے تین مراحل پر مشتمل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر تعلیمی قابلیت بیچلر ڈگری مانگی جاتی ہے۔ کہیں کہیں بارہویں پاس بھی چل جاتے ہیں۔ پھر ہر کمپنی اپنے مطابق تربیتی کورس کرواتی ہے جو 3 سے 6 مہینوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

تربیت کے دوران جہاز اور ہوائی سفر کی بنیادی سائینس پر مشتمل مواد پڑھایا جاتا ہے۔ یہ سمجھایا جاتا ہے کہ کشش ثقل کے خلاف سر اٹھاتا جہاز جب ہوا کو چیرتا پھاڑتا بلندی کی طرف اٹھتا ہے تو اس وقت جہاز کے انجن، پروں اور دم کے اندر کون کون سے طاقتیں قدرت سے نبردآزما ہو رہی ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ آپ کو بھی اپنی طاقت جمع رکھنی پڑتی ہے قدرتی نظام کے خلاف جانے کے لیئے۔ اس نوکری میں “یہ تو ہو گا “۔

قدرتی نظام کے خلاف ایسے کہ اگر صبح 6 بجے پرواز ہے تو 3 بجے گھر سے نکلنا ہو گا۔ مطلب 2 بجے اٹھ کر تیاری کرنی ہو گی۔ گل گئی نا ساری رات؟ اب جہاں پہنچیں گے، بھلے لاہور سے کراچی، ہوائی اڈے سے ہوٹل جائیں گے، ساری رات کے جاگے ہوں گے۔ اب نیند بھی آئے گی اور بھوک بھی لگی ہو گی۔ ایسے مواقع پر بھوک کو گولی مار کر بندہ نیند کے ساتھ بھاگنے کی کرتا ہے۔ کھانا کہ جس کو آپ “میجر میل” کہتے ہیں، نہیں کھایا اور صبح ناشتہ بھی ایسے ہی بھاگتے دوڑتے کیا تھا۔ اب آپ رات کو اٹھیں گے اور اچھا خاصا مزیدار سا کچھ کھا کر سونے کی ناکام کوشش کریں گے کیوں کہ نیند پوری ہو چکی ہو گی۔ اور سویرے پھر پرواز۔ پس ثابت ہوا آپ کو اس نوکری کے دوران اپنے کھانے پینے اور نیند کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنانا پڑے گا۔

ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بارے میں مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر پرواز کے دوران کسی کو طبی امداد کی ضرورت پڑ جائے تو عملہ اس قابل ہوتا ہے کہ جہاز اترنے تک وہ بیمار مسافر کا خیال رکھ سکے اور جہاز اترنے کے بعد ہوائی اڈے پر موجود ڈاکٹر کو مریض کے بارے میں اس کے علاج کے لیئے مفید معلومات فراہم کر سکے۔ سر درد کے شکار مسافر سے لے کر پرواز کے دوران انتقال کر جانے والے مسافر کے جسم کو کیسے سنبھالنا ہے، یہ دنیا کا ہر فضائی میزبان جانتا ہے۔ مصنوعی تنفس کے طریقے یعنی سی پی آر کی تربیت بھی ابتدائی طبی امداد کا اہم حصہ ہیں۔ ان میں جیسے جیسے جدت آتی ہے اسی طرح عملے کو اس کی تربیت دورانِ ملازمت بھی دینا جاری رہتی ہے کہ اس سے زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔

عملے کو آگ پر قابو پانے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ زبان سے لگی آگ اور جہاز پر لگی آگ برابر درجے کی خطرناک اور جان لیوا ہوتی ہیں۔ زبان سے لگائی گئی آگ کو بجھانے کے لیئے وقت لگتا ہے لیکن جہاز پر لگی آگ کو انتہائی قلیل وقت میں قابو نہ کیا جائے تو یہ آپ کو قابو کر لیتی ہے۔ جہاز کے ہر حصے میں آگ بجھانے کے آلات موجود ہوتے ہیں اور عملے کو اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ آگ کی قسم جانچ کر اس پر موافق آلہ یعنی ” fire extinguisher” استعمال کیا جائے۔ مثلاً کپڑے اور پر لگی آگ تیل سے لگنے والی آگ سے مختلف ہوتی ہے۔

فضائی میزبان کا بنیادی کام اور ذمہ داری جہاز پر موجود مسافروں کی حفاظت کرنا اور ہنگامی حالات میں مدد کرنا ہوتا ہے۔ باقی کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں مگر اس بات کا ادراک ہمارے یہاں بہت ہی کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر کے یہ نوکری کرنی پڑتی ہے۔ اس کے لیئے آپ کو بہت سا پانی اور پوری نیند علاوہ زیادہ سارے تحمل اور برداشت کے ساتھ عفو و درگزر کی فراوانی اپنے آنگن میں رکھنی پڑے گی۔ پانی اس لیئے کہ جہاز میں تین گھنٹے کی پرواز کرنے سے آپ کے جسم میں ڈیڑھ لیٹر پانی کی کمی ہو جانے کا امکان ہوتا ہے۔ اگر یہ روش سال ہا سال جاری رہے تو بعید نہیں کہ آپ بنجر زمین کے ٹکڑے کی مانند نظر آئیں۔

پنج ستارہ ہوٹلوں میں قیام، مختلف ملکوں کی سیر اور ان کی ثقافت کو قریب سے پرکھنے کے علاوہ ایک الگ طریقے کا لائف اسٹائل بھی اسی نوکری کا خاصہ ہے۔ دنیا کے ان تمام ہوٹلوں میں خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ عملے کو ایسے کمرے دیئے جائیں جن میں ٹریفک اور ہوٹلوں کے اندر منعقدہ تقریبات کا شور شرابہ کم پہنچے۔ پرسکون نیند اور آرام عملے کے لیئے اگلی پرواز پر بہتر طور پر کام کرنے کے لیئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک بین الاقوامی فضائی کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہیں تو دنیا کے مشہور شہر مثلاً لندن، پیرس اور نیویارک وغیرہ آپ کے لیئے ایسے ہو جائیں کہ کے جیسے آپ کی خالہ یا پھوپی کا گھر۔ سوموار کو اگر آپ لندن میں ہیں تو عین ممکن ہے جمعرات کو آپ نیویارک میں ہوں اور اتوار کی صجح واپس لاہور آ کر کزن کی شادی کا کھانا کھا رہے ہوں۔ اس نوکری میں زندگی بہت تیز چلنے لگتی ہے۔

فضائی عملے کے لیئے دنیا کی تمام ہوائی اڈوں کی ڈیوٹی فری شاپس پر ڈسکاؤنٹ کے ساتھ ساتھ دنیا کے اکثر شہروں کے “بیت الرقص” یعنی ڈسکو کلب وغیرہ میں داخلہ آسان اور مفت ہوتا ہے۔ چھٹی لے کر آپ مفت ٹکٹ پر دنیا کے کسی حصے میں بھی گھومنے جا سکتے ہیں۔ طرح طرح کے ذائقے چکھنے کا موقع ملتا ہے۔

یہاں میری مراد صرف کھانے پینے سے ہے۔

لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب آپ مختلف ذائقوں کے کھانے کھانے کی کوشش کریں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پیرس اور نیویارک جا کر بھی ساگ اور دال ہی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ نوکری گھر تک نہیں آتی۔ آفس کے کام، فائلیں، اسائنمنٹس اور ان سب کے ساتھ ڈیڈ لائن کے چکر لوگوں کو گھر پر بھی پریشان کیئے رکھتے ہیں جب کہ یہ نوکری جہاز پر ہی شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس نوکری میں روز نیا باس اور نئے ساتھی ہوتے ہیں۔ عملے کے سردار کو “Senior purser” کہا جاتا ہے اور کہیں “Flight manager” کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایک کمپنی میں اگر 3 سے 4 ہزار فضائی میزبانوں کا عملہ ہو تو روز نئے ساتھیوں کے ساتھ پرواز پر جانے کا موقع ملتا ہے۔

بس دل لگا کر کام کریں اور اپنا بہت زیادہ خیال رکھیں تو یہ نوکری بہترین ہے۔ باقی غلطیاں سب سے ہوتی ہیں اور انسان روز کچھ نیا سیکھتا ہے۔ جیسے کہ نوکری کے شروع کے دنوں میں مسافروں کے حفاظتی بند چیک کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ تین اکٹھے بیٹھے ہوئے شلوار قمیص میں ملبوس لوگوں نے حفاظتی بند نہیں باندھے۔ میں نے اصرار کیا تو کہنے لگے باندھا ہوا ہے۔ مجھے نظر نہیں آئے تو میں بھی وہیں کھڑا ہو گیا کہ دکھاؤ کہاں باندھا ہے۔ تینوں نے بیک وقت قمیصیں اٹھا دیں اور شلواروں کے عین نیفوں پر بندھے حفاظتی بند میرا منہ چڑانے لگے۔ میں نے تسلی کروانے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ سیکھا کہ کبھی کبھی زیادہ اصرار بھی اچھا نہیں ہوتا۔

خاور جمال