ائیر ہوسٹل اور ہوٹل کے معاملات:
وردی میں ملبوس، اکٹھے حرکت کرتے ہوئے عملے کو ہر جگہ لوگ بڑے غور سے دیکھتے ہیں۔لڑکے لڑکیوں کو ساتھ دیکھ کر اس گرویدگی کے عالم میں ان کی سوچ وہاں پہنچ جاتی ہے جہاں سے واپسی اخلاقی طور سے ممکن نہیں رہتی
۔ اکثریت کے لیئے اس نوکری کا نام بھی پائلٹ ہونا ہے۔ ظاہر ہے بھئی اتنا بڑا جہاز ہوتا ہے، اسے اڑانے کے لیئے بارہ چودہ بندے تو لازمی چاہیئے ہوتے ہیں۔ یہ تو بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ بھائی کیا آپ پائلٹ ہیں۔ اتنے عوام کو بتا بتا کر آخر اکثر جان چھڑانے کے لیئے یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ ہاں جی ہم پائلٹ ہوتے ہیں لیکن ایک بار تو حد ہو گئی۔

میں اور میرا ساتھی ریحان ایک روح فرسا پرواز کرنے کے بعد تھکے ہارے اپنا سامان کھینچتے گاڑیوں کی طرف جا رہے تھے کہ دو نوجوانوں نے تقریباً پورا راستہ روک کر سلام کیا۔ یہ دونوں آرمانی اور گووچی کے دیسی، کم قیمت اور بھرپور فیشنی کپڑوں میں ملبوس تھے۔ مسیں بھیگی کم اور سوکھی زیادہ تھیں۔ سستے نائی سے مہنگے بال کٹوانے کی وجہ سے بالوں کے گچھے وہاں سے کھڑے تھے جہاں پر بیٹھے ہونے چاہئیے تھے۔ خیر سلام کا جواب دیا تو ان میں سے ایک نے سوال داغا کہ
اے پائین تسی ائیر ہوسٹل جے؟
(بھائی آپ ائیر ہوسٹس ہیں)

میرے تصور میں ایک بائیس پہیوں والے ٹرالے کی زوردار بریک لگی اور شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ ریحان کے کانوں میں عظیم اوپرا گائیک پاواروٹی کی دھاڑیں گونجنے لگیں اور ہم دونوں 25۔2 سیکنڈ کے لیئے خاموش ہی ہو کر رہ گئے۔ ہم نے ان کی انگریزی زبان سے اس قدر رغبت اور ہوا بازی کے متعلق خاطر خواہ معلومات رکھنے پر ان کی ہمشیرہ کی پذیرائی کر کے خراجِ تحسین پیش کرنے کا سوچا لیکن نمبر ایک وردی اور نمبر دو تھکاوٹ کی وجہ سے ارادہ ملتوی کر دیا۔ یہاں بھی “آہو پائین” کہہ کر اپنی راہ لی۔
پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ اتنا سامان ساتھ کیوں ہوتا ہے آپ کے۔ جب دیکھو ٹرالی بیگ ساتھ ساتھ کھنچتے جا رہے ہیں اور اکثر ایک بڑا اٹیچی بھی ہوتا ہے۔ تو بات ایسی ہے جیسے “سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں”، ایسے ہی عملے کو بھی پل کی خبر نہیں ہوتی کہ پرواز اگر لندن جا رہی ہے تو راستے میں ماسکو یا جرمنی تو نہیں اتر جائے گی۔
اتر بھی سکتی ہے جیسے ایک مرتبہ پرواز لندن جاتے ہوئے جرمنی کے شہر بون میں اتر گئی تھی کیوں کہ لندن کی طرف برفانی طوفان نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ دو دن وہاں رکنا پڑا۔ ایسی صورت حال میں عملے کے اس ٹرالی بیگ میں سے ہی اضافی وردی، ڈھنگ کے کپڑے ہوٹل میں پہننے کے لیئے اور بے ڈھنگے کپڑے رات کو سونے کے لیئے، جوتا اور دیگر ضروری استعمال کی اشیاء نکلتی ہیں۔ اکثر ایک چھوٹا دستی بیگ ضروری کاغذات رکھنے کے لیئے بھی ہوتا ہے۔ تو “ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زندگی” کی طرح عملے کو بھی ہر گھڑی تیار رہنا پڑتا ہے کہ زندگی کے اچانک بدلتے روپ کا “عملہ وار” مقابلہ کیا جا سکے۔
یہ بیگ عمرو عیار کی زنبیل سے کم نہیں ہوتا۔ دو کپ چائے بنانے کے لیئے سوکھا دودھ، پتی اور برقی کیتلی، بھی اسی میں ہوتی ہے۔ کسی جیب سے الائچی نکل آتی ہے تو کہیں سے دار چینی کا ٹکڑا۔ لوگ کہتے ہیں “ڈیو نا پیا تو پھر کیا جیا” لیکن میری لغت میں” صبح چائے کا کپ نا پیا تو پھر کیا جیا”۔
ایسا نہیں کہ بیرونِ ملک ہوٹلوں کے کمروں میں چائے بنانے کی سہولت میسر نہیں ہوتی لیکن باہر والوں کی چائے بڑی ہلکی ہوتی ہے اور ہوٹل میں پڑی اس برقی کیتلی میں لوگ انڈے اور سبزیاں بھی ابالتے ہیں، اور اپنے چھوٹے موٹے کپڑے بھی صحت و صفائی کے اصولوں پر گرم پانی سے دھونے میں عار نہیں سمجھتے جیسا کہ موزے وغیرہ۔ ایسے حسین و دلفریب مناظر انٹرنیٹ پر وافر مقدار میں موجود ہیں۔ تو جناب کیتلی اور کپ اپنا اپنا کیوں کہ ہوٹل کے کمرے میں موجود کپ میں سگریٹ بھی بجھائی جاتی ہے اور مشروبات غیر طہورا بھی پیے جاتے ہیں
۔

اس نوکری کے لیئے برداشت بہت چاہیے ہوتی ہے۔ کسی کو نئی جگہ نیند نا آنے کا مسلہ ہوتا ہے۔ کسی کا معدہ کمزور ہوتا ہے۔ اب ہر ہوٹل میں بیڈ ایک جیسا تو نہیں ہوتا۔ کہیں دھنس کے سونا پڑتا ہے تو کہیں پھنس کر لیکن کسی جگہ ایسا بیڈ بھی ہوتا ہے کہ اٹھو تو دائمی کمر درد ایسے غائب ہوتا ہے جیسے کسی ایماندار افسر کی جیب سے بیچ مہینے میں تنخواہ۔ مزید یہ کہ جگہ جگہ کا کھانا اور پانی معدہ کو ایسے پھینٹ کر رکھ دیتا ہے جیسے دل والے دلہنیا لے جائیں گے کے آخری مناظر میں کلجیت اور اس کے دوست راج کو۔ تو دل مضبوط کر کے نئی جگہ سونا بھی پڑتا ہے اور معدہ مضبوط کر کے کھانا بھی۔
جیسے ہنگامی حالات سے بچنے کے لیئے ایک فہرست ترتیب دی جاتی ہے جس کے مطابق جہاز پر ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والے آلات کی موجودگی، مدت اور اہلیت جانچی جاتی ہے اسی طرح ہوٹل کے کمرے میں داخل ہو کر بھی عملہ کچھ چیزیں ضرور دیکھتا ہے۔ چارجر بیڈ کے ساتھ والی میز کے اوپر لگے ساکٹ میں لگ جائے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ شاور کے پردے کے پیچھے اور بیڈ کے نیچے ایک نظر ضرور دیکھ لیا جانا چاہیئے کہ کوئی لاش وغیرہ نہ پڑی ہو۔ 

پاکستانی ہوٹلوں کے اپنے مزاج ہیں۔ ان میں سب سے پہلے تو یہ کہ بیت الخلا میں پانی کی ترسیل مروجہ قوانین کے مطابق ہو تو کافی سکون ریتا ہے۔ مسلمانی شاور سے کبھی کبھی پانی کی جگہ افریقی حبشیوں کے نیزے نکلتے ہیں جو خاطر خواہ اور دیر پا تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں۔ بیسن کے نل کو چلانے کے بعد اگر اس میں سے پانی کے بجائے لوفر لڑکوں کی سیٹیوں آواز آئے تو فوراً استقبالیہ پر فون کر کے بتانا پڑے گا۔ باہر کے ہوٹلوں کے بیت الخلا کے شاور میں ٹھنڈا گرم پانی اور اپنے یہاں صرف پانی کا نظام چیک کرنا ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ سیالکوٹ کے ایک ہوٹل میں شاور چیک کرنا بھول گیا۔ انسان ہوں، نسیان تو ابد تک ساتھ ہے۔ اب غسل پرواز کے لیئے چھوٹے سے اکھاڑہ غسلاں میں داخل ہوا ( جو آج کل کافی فیشن میں ہے) جس میں پانی نکلنے کے اتنے راستے تھے جتنی اندرون شہر کی گلیاں۔ چھوٹی ٹوٹی چلا کر مسلہ فیثا غورث حل کیا کہ ٹھنڈا پانی آتا تو گرم روٹھ جاتا۔ گرم کے ترلے کرتا تو ٹھنڈا میکے چلا جاتا۔ خیر یہ راضی نامہ ہوا تو مرکزی ٹوٹی گھمائی ہی تھی کہ اتنی جگہ سے متذکرہ بالا نیزے نکلے کہ میں قدیم ہندوستانی ٹھگوں کی مانند لچک اور پھرتی نہ دکھاتا تو وہاں وہاں زخم لگتے کہ کسی کو بتا بھی نہ پاتا۔
دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسی جگہوں پر بھی گزارا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات ایسے ہوٹل ملتے ہیں کہ اپنی قسمت پر رشک آتا ہے اور جذباتی غدود کی زیادتی سے آنکھوں میں خوشی کے آنسو۔ بیڈ کی سائیڈ پر رکھے ریموٹ کے زریعے کمرے کی روشنی، پردے اور حرارتی نظام قابو کرنے کا بھی تجربہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک بار بیت الخلا کا فرش بھی ایسا پایا کہ اسے مرضی کے مطابق ٹھنڈا یا گرم کیا جا سکتا تھا اور کمرے سے زیادہ آرام دہ معاملہ تھا۔ لیکن چوں کہ بیت الخلا حوائج ضروریہ کے لیئے مخصوص ہے لہذا حوائج عامہ کمرے تک محدود رکھنے پڑے۔
عملے کے ان تمام تجربات سے سبق سیکھیں اور اگر آپ مستقبل قریب میں سفر کرنے والے ہیں تو ان سے استفادہ کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔
خاور جمال