Article by Khawar Jamal, Ex Crew. Posted by Abid Khalil

مسافروں کی روٹی اور عملے کی ذمّہ داریاں 🥖🧑‍✈️🍞

فضائی عملے کو اگر کوئی عام آدمی فون پر یا آپس میں ہی، خاص طور پر وردی کے بغیر بات کرتا ہوا سن لے تو یہی سمجھے گا کہ یہ لوگ دیوانے ہیں یا بہت ہی لمبی چھوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری باتیں کچھ ایسی ہوتی ہیں،

یار میں کل صبح لندن جا رہا ہوں، پرسوں شام کراچی آ جاؤں گا پھر ملتے ہیں انشاء اللہ۔

سر میں آج رات جدہ جا رہا ہوں، کل دوپہر میں واپس آ کر آپ کے پاس حاضر ہوتا ہوں۔

ابھی تو دبئی جا رہا ہوں۔ شام کو آتا ہوں تو پھر ڈاکٹر کے چلتے ہیں۔

اور اسی قسم کی اور باتیں جن کو سن کر عوام ایک لمحے کے لیئے تو سن ہی ہو جاتے ہیں کہ ایسا تو کوئی بزنس مین بھی کیا سفر کرتا ہو گا کہ آج دنیا کے اس حصے میں ہے اور کل دوسری طرف۔ لیکن حقیقت میں عملے کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ ناشتہ لاہور میں، دوپہر کا کھانا کہیں روس کے اوپر 36000 فٹ کی بلندی پر گزرتے ہوئے اور رات کا کھانا لندن میں۔ لیکن اس تیز رفتار سفر کے اثرات اس طرح سامنے آتے ہیں کہ سو کر اٹھنے کے بعد ہوٹل کے بیڈ پر لیٹے ہوئے ہی کچھ دیر کے لیئے سوچنا پڑتا ہے کہ میں لندن میں ہوں یا اسلام آباد میں۔ 😵‍💫😴

یہ حقیقت ہے کہ زیادہ فضائی سفر کرنے سے یاداشت پر اثر پڑتا ہے۔ جہاں تک میں نے نوٹ کیا ہے، پرانی باتیں تو یاد رہتی ہیں لیکن ماضی قریب کے واقعات ذہن میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے نام بھول جاتے ہیں، مخصوص جگہوں کے نام اس لمحے بالکل دماغ سے غائب ہو جاتے ہیں جب کسی کو بتانا مقصود ہوں۔🥴

 ایک مرتبہ سو کر اٹھا تو دماغ بالکل سن تھا۔ کمرے کی چھت پر نظر پڑی، پھر دیواروں کو دیکھا۔ دماغ نے قبول کیا کہ کراچی کے ہوٹل میں ہوں۔ ہیڈ آفس میں کچھ کام تھا چناں چہ مطلقہ دفتر میں فون ملایا۔ بندہ سیٹ پر موجود تھا۔ سوچا آج تو فٹافٹ کام ہو جائے گا۔ نہا دھو کر تیار ہوا اور کمرے سے نکلا تو سامنے لفٹ کو دیکھتے ہی ذہن میں بجلی کوندی لیکن گری میرے اوپر⚡🤯۔ نینو سیکنڈ کے اندر مجھے ادراک ہوا کہ یہ لفٹ تو اسلام آباد کے ہوٹل کی ہے۔ کام تو ہونے سے رہ گیا لیکن میں نے ایک عادت اپنائی۔ سوتے وقت سائیڈ ٹیبل پر پانی کی بوتل کے ساتھ میں ہوٹل کا نوٹ پیڈ رکھ دیا کرتا تھا تا کہ پھر کبھی ایسی صورت حال پیش آئے تو مجھے کم از کم یہ پہلے سے معلوم ہو کہ میں کہاں پایا جاتا ہوں۔🤨

مسلسل ایک ہی جگہ توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے باقی باتوں کا دھیان نہ رہنا ایک عام بات ہے۔ بنیادی طور پر فضائی عملہ جہاز کے اندر مسافروں کی حفاظت کے لیئے ہوتا ہے۔ تربیت کے دوران سیفٹی پر اتنا زور دیا جاتا ہے کہ باقی چیزیں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ مجھے تو تربیت کے دوران خواب بھی یہی آتے تھے کہ جہاز میں آگ لگ گئی ہے یا کہیں کریش لینڈنگ ہو رہی ہے اور میں مسافروں کو بچا رہا ہوں۔

بس اس دن کے بعد میں نے تربیت پر بہت زیادہ دھیان دیا کیوں کہ تربیت اور تربت میں صرف “چھوٹی یے” کا فرق ہے۔😐🤐

 چناں چہ میں نے فیصلہ کیا کہ اگر کبھی پرواز پر ہنگامی حالات درپیش ہوں تو مسافروں کو بچانے کے لیئے اللّٰہ میاں اور ان کے ماں باپ کی دعاوں کے بعد میرا مکمل طور پر تربیت یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ یہی چیز عملے کی زندگی میں ایسے پنجے گاڑتی ہے کہ جڑوں میں بیٹھ جاتی ہے۔

فضائی عملہ کھانا کھانا بھول سکتا ہے، کسی ہوٹل کے کمرے میں اپنا چارجر چھوڑ کر جا سکتا ہے لیکن جہاز پر آ کر آگ بجھانے کے آلات اور ابتدائی طبی امداد کے بکس کی موجودگی کو یقینی بنانا نہیں بھولتا اور ہر پرواز سے پہلے ہنگامی حالات میں سب مسافروں کو با حفاظت جہاز سے باہر نکالنے کے عمل کو دہرانا بھی نہیں بھولتا۔🧯⛑️ اس لیئے اپنے فضائی میزبان کی قدر کیا کریں اور سرورق دیکھ کر کتاب کو چانچنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیں جیسے ایک بار میں نے کی تھی۔😬🤷🏻‍♂️

بورڈنگ کے دوران ایک شخص کو میں نے انگشت بہ نتھناں دیکھا تو دوسری طرف رخ کر کہ برا سا منہ بنایا😏۔ لیکن اچانک آنکھیں سکیڑ اور پھر بھنویں اچکا کر میں نے سوچا کہ یہ میں نے ابھی کیا دیکھا ہے😯۔ واپس گھوم کر ان صاحب کو دیکھا تو وہ ہنوز “کارناکیوں” میں مصروف تھے۔ مجھے حیرانی اس بات پر نہیں تھی کہ وہ  اپنے ناک نخرے اٹھا رہے تھے بلکہ اس بات پر تھی کہ ان کی آدھی سے زیادہ انگلی داہنے نتھنے کے دہانے میں غائب تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پر تاثرات ایسے تھے کہ نہایت غور وفکر کرنے کے بعد وہ کسی نتیجے پر پہنچنے ہی والے ہیں😑۔ یکایک ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انگشت شہادت “تیرہ ناکیوں” سے نکل کر عالم رنگ و بو میں وارد ہوئی۔ ان کی آدھی انگلی کٹی ہوئی تھی۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ ناجانے میں کیا کیا سوچ رہا تھا اور وہ کس مشکل میں مبتلا تھے۔🥲

اسی طرح لوگوں کو بھی فضائی عملے کا خیال کرنا چاہیئے۔ بعض اوقات صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ مسافر یہ سمجھنے لگتے ہیں جیسے عملے کے اندر پچاس جی بی کی ریم لگی ہو اور دو سو چھپن جی بی کا میمری کارڈ۔ یہ خاص اس وقت ہوتا ہے جب کھانے کی سروس دی جا رہی ہو۔ نا تو راونڑ کی طرح گیارہ سر اور بائیس کان ہوتے ہیں کہ بیک وقت ہر کسی کی بات سنی جا سکے اور نہ ہی کسی آکٹوپس کی طرح لاتعداد ہاتھ ہوتے ہیں کہ چائے، پانی، بوتل اور گولی ایک ساتھ آٹھ دس لوگوں کو اکٹھی دی جا سکیں۔ گولی سے مراد یہاں ڈسپرین کی گولی ہے لیکن آپ بھی ٹھیک سمجھے ہیں۔ 🐙

میں نے جب اس نوکری کے لیئے درخواست دی تو میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ یہ لوگ بھی انسان ہوتے ہیں 😯ورنہ پہلے میں بھی سب کی طرح فضائی عملے کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھتا تھا۔ ہر لحاظ سے مکمل اور غلطیوں سے مبرا۔ بعد میں میری اس غلط فہمی کی تصحیح ہو گئی اور میں بھرتی ہو گیا۔🧑‍✈️

 ایک مرتبہ آدھی رات کو لاہور تا کراچی پرواز پر سنیک سروس دے رہا تھا۔ ایک صاحب کو جگانے کی ہلکی سی بھرپور کوشش کے بعد سوتا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ آخری قطار میں پہنچا تو کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پنجابی لہجے میں اردو بولتے ہوئے کہا

“بھائی مجھے روٹی نہیں ملی”۔ 🥖🍞😐

روٹی کا لفظ سن کر مجھے لگا جیسے میں نے ٹرالی کے اندر تندور دہکایا ہوا ہے اور اوپر خمیری روٹی کے پیڑے رکھے ہوئے ہیں جو میں جھپاک سے تندور کے اندر لگا رہا ہوں اوراس کے بعدلمبوتری آہنی ڈنڈیوں کے ذریعے پک جانے والی روٹیاں نکال کر مہارت سے گول گھماتے ہوئے ان کے سامنے دھرتا جا رہا ہوں۔ ان تندوری خیالوں سے نکلنے کے لیئے میں نے گیس کی لو کو انھی آہنی ڈنڈیوں سے دھیما کیا اور تندور سے باہر نکل کر ان سے کہا آپ جا کر اپنی نشست پر بیٹھیں، میں روٹی لے کر آتا ہوں۔

 بعد میں جب ان کو میں نے سوکھی روٹی ( کولڈ سینڈوچ اور کیک پیس) پیش کی تو بہت پچھتائے کہ اس کے لیئے میں نے اپنی نیند خراب کی۔ میں نے ان کے غم میں برابر شرکت کر کے رات کے اس پہر ان کی دل جوئی کی کیوں کہ تندور سے نکلی تازی گرما گرم کڑک خمیری روٹی کھانے کا میرا بھی دل کرنے لگا تھا۔🤤🙄   

خاور جمال