Article by Khawar Jamal, Ex Crew. Posted by Abid Khalil

جانم اور بشیر کی مچھلی

زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جن کو آپ نہیں جانتے، نہ ان سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور یہاں تک کہ کوئی فائدہ بھی منسوب نہیں ہوتا مگر پھر بھی وہ کسی نہ کسی طرح آپ کی زندگی پر اثر انداز رہتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ لوگ مر کر آپ کی زندگی پر اثر انداز ہونے لگیں تو پھر معاملہ گڑبڑ ہو جاتا ہے۔ میرا واسطہ ثانی الذکر لوگوں سے پڑا۔ معلوم نہیں مانچسٹر کے بھوت اور بھوتنیاں میرے اتنے گرویدہ کیوں رہے کہ اکثر راتوں کو مجھے اکیلا نہ چھوڑتے۔ چاہے میں فلائیٹ سے آ کر جلدی سو جاوں یا رات کو دیر سے ہوٹل آ کر سونے لیٹوں، وہ سب

گھڑی رات کا ایک بجائے

اور جانو گھر نہ آئے

تو سمجھو گڑ بڑ ہے

گا گا کر میرا انتظار کرتے۔ مانچسٹر شہر کے وسط میں مارکیٹ سٹریٹ کے آس پاس کمپنی کی طرف سے یکے بعد دیگرے تین ہوٹل بدلے گئے لیکن اس ذات کے بھوتوں سے پالا پڑا تھا کہ وہ ساری برادری آپس میں کنیکٹیڈ رہتی اور ایک دوسرے کو میرا پتہ بتا دیتے۔

اب میں ہر بار ایک نئے کمرے میں رہنے کے لیئے آسیب اتار مہم تو نہیں چلا سکتا تھا اور نہ ہی ہمیں فضائی میزبان بننے کی تربیت کے دوران جھاڑ پھونک کا کریش کورس یا ڈپلومہ کروایا جاتا ہے ( جو کہ اگر کروا دیا جائے تو سود مند رہے) چناں چہ بند لیپ ٹاپ کا خود سے آن ہو کر چل پڑنا، کمرے میں ایک دم بدبو پھیل جانا، آئینے میں بھوتنی کا نظر آنا یا کسی مرحوم رشتہ دار کو “نا قائمی ہوش و حواس” دیکھنے کی پھر عادت سی ہو گئی۔

اس سب پر مستزاد یہ کہ کمرے اتنے چھوٹے ہوتے تھے کہ منا بھائی فلم کے کردار سرکٹ کے بقول ” ارے بھائی، یہ کمرہ تو پاوں رکھتے ہی ختم ہو جاتا ہے” والا معاملہ تھا۔ بیڈ اور دیوار کا فاصلہ اتنا تھا کہ اگر رات کو آپ گھبرا کر جلدی سے اٹھیں تو پورا اٹھنے سے پہلے ہی آپ دوبارہ بیڈ پر لیٹے ہوں گے۔ سوٹ کیس یا ٹرالی بیگ کھول کر رکھ لیں یا پھر کمرے میں کھڑے ہونے کی جگہ بنا لیں۔ دونوں میں سے ایک کا انتخاب حسن جمہوریت کے پیش نظر آپ کو دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کائناتِ دڑبہ نما میں اتنی بڑی سنگھار میز مع کرسی کے رکھی ہوتی ہے جیسے ہم کسی ملک کے شہزادے ہیں اور تیار ہونے میں پورا دن لگانا ہے ہمیں۔

ٹی وی ایسے لگا ہوتا تھا کمرے میں کہ اگر آپ بیڈ پر

 بالکل سیدھا بیٹھ کر گردن کو ستر کے زاویے پر گھمائیں تو ٹی وی آپ کو صحیح نظر آئے گا۔ جی ہاں بیڈ پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا پڑتا تھا کیوں کہ سنگھار میز کی کرسی کو ٹی وی کے ساتھ رکھ کر بیڈ اور سنگھار میز کے درمیان سے گزرنے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ اب آپ ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور ٹی وی اور کرسی مل کر آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ اور رات کو اسی کرسی پر بیٹھا کوئی نظر آ جائے تو کہاں جائیں گے آپ۔

کمرے کی دیورایں کسی فارغ النسل قسم کے گتے سے بنائی گئی تھیں تا کہ مہمان اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہ کریں اور ان کو آس پڑوس کے کمروں میں ہونے والی کاروائیوں کی خبر ہر دم ملتی رہے۔ معلوم نہیں وہ ہمیں کسی تاج برطانیہ مخالف گروہ کا کارندہ سمجھ رہے تھے یا کوئی اور بات تھی کیونکہ آوازیں تو ہمیں بھی آس پاس والے کمروں سے برابر آتی رہتی تھیں خاص کر فرنگی لوگ “صبح کی ورزش” کافی زور و شور سے کرتے تھے جس کی وجہ سے میرا بھی دل کرتا تھا ورزش کرنے کو لیکن اول سستی اور دوم ذرائع ورزش کی عدم موجودگی کے باعث میں کانوں پر تکیہ دے کر سو جانے میں ہی راہ نجات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا تھا۔ اب اگر ورزش کے لیئے ہوٹل کے کمرے کی چیزیں استعمال کرنا شروع کر دی جائیں تو غلط بات ہے نا اور چوٹ لگنے کا اندیشہ الگ۔

سارے ہوٹل ایسے نہیں ہوتے لیکن کہیں کہیں گزارہ کرنا پڑتا ہے کیوں کہ جن جگہوں پر یہ ہوٹل ہوتے ہیں وہ بہت اعلیٰ ہوتی ہیں۔ شاپنگ، کھانے پینے اور تفریح کے مواقع ایک جگہ پر ہی دستیاب ہوں تو کیا ہی بات ہے۔

برطانیہ میں دودھ سے بنی اشیاء اور گوشت لے جانا منع ہے۔ ہر پرواز پر برطانیہ کے کسی بھی شہر میں اترنے سے پہلے یہ اعلان کیا جانا لازمی ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں دیسی ائیر لائنز کے عملے کو کافی مزے مزے کی سوغات سے مشرف بہ طعام ہونا پڑتا ہے۔ کیا کریں مجبوری ہے۔ بہترین اور اعلیٰ قسم کا رزق ضائع ہوتے دیکھ کر بھی تو تکلیف ہوتی ہے۔🤷🏻‍♂️😬

 مانچسٹر اترنے سے پہلے یہ اعلان سن کر ایک صاحب تشریف لائے اور کہنے لگے بیٹا یہ اعلان کیا ہے آپ لوگوں نے تو بشیر کی پانچ کلو مچھلی کا کیا ہو گا اب۔ میں نے کہا آپ بشیر کو بھیجیں میرے پاس میں اسے سمجھا دیتا ہوں کیا کرنا ہے۔ بولے وہ تو دور بیٹھا ہے۔ میں نے کہا کتنا دور بیٹھا ہے، تین حصے ہیں جہاز کے، آگے کسی سیٹ پر بیٹھا ہو گا۔ بولے نہیں وہ تو پاکستان بیٹھا ہے۔ میں نے کہا اگر بشیر پاکستان بیٹھا ہے تو کیا مسلہ ہے اسے کہیے گا اگر برطانیہ آنے والا ہے تو مچھلی نا لے کر آئے۔ بولے نہیں نہیں مچھلی تو میرے پاس ہے۔ میں بولا حضور اگر مچھلی آپ کے پاس ہے تو اس پر بشیر کو کیا اعتراض ہے۔ کہنے لگے اعتراض بشیر کو نہیں برطانیہ کو ہے۔

 میں بس “اوہ ہاں” کر کے رہ گیا کہ اس دوران میں خود بھول گیا کہ یہ اعلان تو ہم نے ہی کروایا ہے ابھی🤦🏻‍♂️۔

 خیر دماغ کا فالودہ بن گیا اور معلوم ہوا کہ وہ صاحب المشہور بشیر دارالماہی لاہور سے مچھلی لے کر اپنے عزیز و اقارب کے لیئے بطور سوغات لے کر جا رہے تھے۔ یہ پتہ چلنے پر کہ مچھلی پکی ہوئی حالت میں نہیں ہے، بھاری دل کے ساتھ ان کو مچھلی تلف کرنے کا مشورہ دے کر پرواز اترنے سے پہلے کے انتظامات میں مصروف ہو گیا۔

پہلی مرتبہ مانچسٹر آتے ہوئے میں نے جب ایک دو بار یہاں آئے ہوئے ساتھیوں میں ایک سے ادھر کھانے کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا فکر نا کر جانم سے کھا لیں گے۔ ایک اور سے پوچھا تو وہ بھی جانم کا تذکرہ لے بیٹھا۔

 میں نے سوچا بہت ہی کوئی عظیم خاتون ہیں جو اتنی مہربان ہیں بلکہ چشمِ تصور میں ایک پری زاد حسینہ کو لہراتی بلونڈ زلفوں کے ساتھ  ایک ہاتھ میں پیزا اور دوسرے میں روسٹ مرغا اٹھائے برطانوی لہجے میں اپنی طرف ادائے غلط انداز سے دعوت طعام دیتے ہوئے بھی دیکھا۔ چوں کہ تخیل سلو موشن میں تھا اور جہاز پر کام زیادہ لہذا یہ نہ معلوم ہو سکا کہ میں کامیاب ہوا یا وہ پری زاد کیوں کہ زاد راہ سمیٹنے کا وقت آ گیا تھا کہ جہاز اترنے کے قریب تھا۔

ہوٹل پہنچ کر جانم کے پاس جانے کو بے تاب تھا کیوں کہ بہت بھوک لگ رہی تھی۔ “میرے ارمانوں کے گرم توے پر ٹھنڈے یخ پانی کا ترونکا وج گیا” اور “چھس” کی آواز آئی جب جانم اصل میں ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ نکلا اور اس میں جانم کے عین متضاد ایک فارغ البال اور فربہ اندام انکل نے کھانے کا آرڈر لیا۔ کھانا بھی بس ٹھیک ہی تھا، اور میں بھی۔ 😏

قیام دو دن کا تھا۔ اگلے دن گھومنے نکلا۔ آرنڈیل نام کا ایک بہت بڑا شاپنگ مال قریب ہی تھا۔ اسی میں گھومتے ہوئے ایک نئی نویلی دکان پر نظر پڑی جس کا نام چاکلیٹ ہاوس تھا۔ انواع اقسام کی چاکلیٹ دیکھ کر قوت ذائقہ کے ریشوں نے سینکڑوں کیوسک فٹ لعاب کے وہ ریلے بہائے کہ بیان سے باہر ہے۔ اس سے پہلے کہ سیلاب دہن سے نکل کر ٹخنوں تک پہنچتا، اس کا گھونٹ بھر لینے میں ہی عافیت جانی۔ اندر داخل ہوا تو دو دوشیزائیں خوش آمدید کہنے کو لپکیں اور دو قسم کی چاکلیٹ چکھنے کو پیش کیں۔

فیصلہ نہ کر پایا کہ دونوں میں سے کون سی والی زیادہ مزے کی ہے۔۔۔ چاکلیٹ۔

لہذا دونوں کا ایک ایک ڈبہ خرید لیا۔ عجیب مزیدار قسم کی چاکلیٹ تھی کہ ایسا ذائقہ پہلے کبھی نہیں چکھا تھا حالانکہ پاکستان کی مشہور جوبلی چاکلیٹ میں نے بہت کھائی ہے۔ احتیاطاً اجزاء کی فہرست پڑھی تو مشکوک ممنوعہ چیزوں کا اندراج پایا۔ پکا ارادہ کیا کہ آئیندہ یہ نہیں کھاوں گا اور ایک ڈبہ اور خریدنے شاپنگ مال کی طرف چل پڑا۔

اس مال کے ایک طرف “مانچسٹر وہیل” نامی دیو قامت جھولا جو کہ “لندن آئی” کی طرز کا تھا، موجود تھا۔ پھر 2015 میں اسے وہاں سے ہٹا لیا گیا تھا۔ قریب ہی “اوڈین” سینما ہے جہاں میں ایک ٹکٹ میں دو مزے کبھی نا کر سکا کیوں کہ امریکہ کے مقابلے میں یہاں کی سیکورٹی زیادہ سخت ہے۔ سینما کے ہی آس پاس دو کلب ہیں جہاں میں پہلی بار اپنے دوست گلریز کبیر (نام بدل دیا گیا ہے) کے ساتھ گیا تھا۔ اس کے ڈانس سٹیپ گورے بھی کاپی کرتے تھے کیوں کہ ہو سکتا ہے بہت سے گوروں نے “بے ہنگم لڈی” ڈالتے ہوئے شاید پہلے کسی کو نا دیکھا ہو اور وہ اسے رقص جدید سمجھتے ہوں۔

قریب ہی ایک اور ہوٹل کے پچھواڑے میں “مردانہ کلبوں” کی ایک قطار ہے جہاں میں ایک بار اپنے دوست عدیل کے ساتھ غلطی سے چلا گیا تھا۔ وہاں ایک نوجوان نے ہم پر فریفتگی ظاہر کی۔ ہم نے شگفتگی سے رو برو ہی معذرت کر لی کیوں کہ ناراض ہو کر پیٹھ کر کے بیٹھنے میں بھی خطرہ تھا🤷🏻‍♂️۔ اس کے بعد فوراً وہاں سے جان، مال، عزت و آبرو اور باقی ماندہ اشیاء بچا کر نکلنے والی کی۔

خاص مواقع پر مارکیٹ سٹریٹ اور پکڈلی گارڈن کا علاقہ خوب سجایا جاتا ہے۔ کرسمس آنے والا ہے، تیاری زوروں پر ہو گی۔ تقریباً ڈیڑھ سال ہو گیا ہے مانچسٹر آخری مرتبہ گئے ہوئے۔ آج تک کسی بھوت یا بھوتنی نے یاد نہیں کیا۔ شکر ہے یہ آن لائن بلاگ نہیں پڑھتے ورنہ شاید یہ آپ بیتی پڑھ کر ملنے ملانے آ جاتے تو بڑا مسلہ ہو جاتا میرے لیئے👻۔

خاور جمال