کھانے کی ریڑھی اور ڈچ پولیس کی پھرتی:
میں نے حساب لگایا ہے کہ ہمارے یہاں لوگوں میں اختیار، قبول اور اپنانے کا مادہ نہایت قلیل مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اور بھول جانے میں تو ہم سب ویسے ہی مشہور ہیں۔ اس نوکری کے دوران میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جو سال میں کم از کم دو بار جہاز پر ضرور سفر کرتے تھے لیکن ہر مرتبہ بالکل کورے ہو کر تشریف لاتے۔ شکل تو کسی کی یاد نہیں رہتی کیوں کہ اگر عملہ مسلسل ایک ہفتہ ہی اندرون ملک پروازیں کرے تو بلا مبالغہ ہزار سے زائد شکلیں دیکھنی پڑتی ہیں، لیکن لوگوں سے بات کر کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیر سے کچھ لوگ تو “بارہا پرواز کرنے والے” ہیں یعنی فریکوئینٹ فلائرز مگر جہاز میں سفر کرنے کے تمام آداب کی جان کاری صفر۔
یہاں ان تمام لوگوں کو استثناء حاصل ہے جو پہلی اور آخری مرتبہ جہاز پر تشریف لاتے ہیں یعنی کہ عمرہ اور حج کی ادائی کے لیئے۔ ان پروازوں پر خاص طور سے بہت نئی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ مثلاً ایک مرتبہ ایک مسافر خاتون جدہ سے ملتان واپسی کی پرواز پر کہنے لگیں
“پتر، روٹی ڈیونڑ آلی ریڑھی کڈھنڑ آسی”۔
(” بیٹا، کھانے والی ریڑھی کب آئے گی”)۔
کچھ لمحے تو میں اس اچانک سوال پر انھیں اور ان کے آس پاس موجود مسافروں کو دیکھتا رہا اور وہ سب مجھے کیوں کہ ہم سب کے چہروں پر لفظ “ہیں؟ ” کے تاثرات عیاں تھے۔ پھر فوراً سے میں نے بات کو سمجھتے ہوئے کہ وہ سروس ٹرالی کے بارے میں پوچھ رہی ہیں، ان کو جواب دیا کہ ” ماں جی ہنڑیں گھن تے آندا پیاں اے ڈو منٹ اچ”۔ (ماں جی ابھی لے کر آ رہا ہوں دو منٹ میں)۔
پھر ایک صاحب ناراض ہو رہے تھے کہ بیت الخلا میں وہ سسٹم کیوں نہیں جو ہمارے گاؤں میں ہے۔ میں نے جان کی امان پاتے ہوئے عرض کی کہ عالم پناہ پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر کھیت کھلیان کا انتظام کہاں سے کروں اور یہ سہولت دینے کا وعدہ تو ٹکٹ دیتے ہوئے کمپنی نے بھی آپ سے نہیں کیا تھا۔ کہنے لگے وہ زمانے چلے گئے میاں، ہم بھی ماڈرن ہو گئے ہیں لیکن جس طرح بیٹھ کر ہم معاملات حل کرتے ہیں ویسا نظام جہاز پر موجود نہیں۔ ہم اس طرح بیٹھ کر مسائل حل نہیں کر سکتے۔ میں نے حسب معمول معذرت کی گردان دہرا کر ان کو شکایت داخل دفتر کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
یہ تو پہلی مرتبہ والوں کا قصہ تھا۔ کافی مرتبہ سفر کرنے والوں کو بھی اول تو نشان دہی کرنے کے باوجود بیت الخلا کا دروازہ نہیں ملتا۔ مل جائے تو اندر کے معاملات سمجھ نہیں آتے۔ ایک صاحب باہر آ کر کہنے لگے بھائی اندر “فلیش” نہیں چل رہا۔ میں نے ان کو دبی زبان میں سرزنش کی کہ ایسے کام اچھے لوگوں کو زیب نہیں دیتے۔ اندر اول تو اتنی جگہ نہیں کہ ایسی تصاویر لی جا سکیں کجا آپ فلیش نا چلنے کی شکایت لے آئے ہیں۔ ہم نے اندر فلیش جیمر تھوڑی لگائے ہوئے ہیں۔ اپنے موبائل کیمرے کو چیک کریں شاید کوئی گڑبڑ ہو۔ وہ بوکھلا گئے اور پریشانی میں مادری زبان بولنے لگے تو معلوم ہوا کہ پریشان ہیں اگر ان کے بعد کوئی مسافر اندر گیا تو ان کے مال غنیمت کا نظارہ باعث تکلیف نہ بنے۔ پھر ان کو بتایا کہ جس پنچائیت میں آپ فیصلہ کر کے آئے ہیں اسی کے اوپر ایک نیلے رنگ کا بٹن ہے جس پر “دبائیے” لکھا ہوا ہے۔ اس کو دبانے سے “فلیش” کی بجلی کوندے گی اور آپ کا مسلہ حل ہو جاوے گا۔
ایمسٹرڈیم کی پرواز تھی۔ سروس ہو چکی تھی۔ چوں کہ پرواز نے علی الصبح اڑان بھری تھی اس لیئے بہت سے مسافر کھڑکیوں کے پردے گرا کر سو رہے تھے۔ میں بھی آنکھیں بند کیئے مکمل طور پر جاگ رہا تھا۔ اتنے میں کال بیل بج اٹھی۔ مطلوبہ نشست پر پہنچا تو وہاں موجود ایک صاحب جو کھڑکی کی طرف ٹیک لگائے اور ٹانگیں ساتھ والی نشست کی ہتھی پر رکھے ہوئے تھے کہنے لگے اخبار پڑھنا چاہتا ہوں، سیٹ کی بتی جلا دیں۔
ایک تو میں مکمل طور پر جاگ رہا تھا اور دوسرا وہ انتہائی غلط انداز سے تقریباً لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے کہا سر اس کے لیئے آپ کو اپنی ٹانگیں اٹھانا پڑیں گی۔ غالباً ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، اچک کے بولے “ہیں؟ کیا مطلب؟”۔ میں نے کہا سر عرض یہ ہے کہ جس ہتھی پر آپ نے ٹانگیں رکھی ہیں، اسی کے نیچے بتی کا بٹن ہے۔ میرے سیانے پن کی داد دیتے ہوئے کھسیانے ہوئے اور انھوں نے ٹانگیں اٹھا لیں، ہتھی سے۔
اور یوں میں نے ان کو “بتی” جلا کر دی۔ شکر ہے ان کی جگہ کوئی خاتون نہیں تھیں۔
ایمسٹرڈیم اور یورپ کے تیسرے مصروف ترین ہوائی اڈے سکیپول پر اترے جس کو میں فضائی میزبانی سے پہلے تک ہمیشہ شی-پھول پڑھتا رہا تھا کہ شاید یہاں ٹیولپ کے پھولوں کے باغ ہیں جو ہم نے امیتابھ بچن پر فلمائے گئے سلسلہ فلم کے مشہورِ زمانہ گانے “دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے” میں دیکھے تھے۔
ہمارا قیام تھوڑی دور موجود روٹرڈیم کے علاقے میں تھا۔ پلان بن چکا تھا۔ اگلی صبح میں دو ساتھیوں کے ہمراہ چمن زار ٹیولپ کا دیدار کرنے نکل کھڑا ہوا۔ روٹرڈیم سے ٹرین پکڑی اور کچھ پیدل سفر کیا۔ راستے میں سڑک پر رکشہ بھی نظر آیا تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ یہ بھی ہم لوگوں کی طرح ترقی کر گئے ہیں۔ تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے میں عظیم الشان باغات “کیوکن ہاف” ہمارے سامنے تھے۔
داخلی دروازے پر مس لبنیٰ اور میں نے تصویر بنوائی۔ استقبال روایتی لباس میں ملبوس ایک دوشیزہ نے کیا جو ان میں تقریباً عمر رسیدہ لگ رہی تھی۔ کمال ہی دنیا ہے ٹیولپ کے پھولوں کی۔ ہر رنگ اور نسل کا ٹیولپ وہاں موجود ہے۔ ہر طرف سبزہ اور باغیچے جن میں ترتیب سے کیاریاں بنی ہوئی ہیں اور درخت لگے ہوئے ہیں۔ دودھ اور شہد کی نہریں نہیں تھیں ورنہ جنت کا پورا ماحول تھا۔
باغ کی پچھلی طرف بڑی بڑی پن چکیاں نصب تھیں جو خاصی پرانی وضع قطع کی تھیں۔ جگہ جگہ فوارے نصب تھے اور ساتھ ہی گھاس اور بھوسے کے گٹھوں کو جوڑ کر بیٹھنے کا انتظام تھا۔ ساتھ لائے گئے سینڈوچ ہم لوگوں نے وہیں بیٹھ کر کھائے۔ تقریباً 80 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے اس باغ کو پورا تو نہ دیکھ پائے مگر جتنا دیکھا اس کی خوبصورتی نا قابلِ بیاں ہے۔ تصاویر میں بھی وہ لطف نہیں جو اس جگہ کو خود دیکھنے میں ہے۔
واپسی پر معلوم ہوا کہ ہماری سینئیر مس لبنیٰ کا موبائل فون گم گیا ہے۔ غالباً باغ میں ہی کسی جگہ گر گیا ہو گا۔ ہوٹل پہنچ کر معلوم ہوا تو ہوٹل سے نزدیکی پولیس اسٹیشن کا پتہ پوچھا اور جا پہنچے رپورٹ لکھوانے۔
پولیس اسٹیشن میں داخل ہوئے تو ایک حسین لیکن بہت مضبوط دوشیزہ نے استقبال کیا اس لیئے ساری توجہ رپورٹ لکھوانے پر مرکوز رکھی۔ خوش قسمتی سے مس لبنیٰ کے موبائل پر لندن سے لی گئی سم چل رہی تھی۔ ایک اور ساتھی عدیل کے پاس بھی یورپ کی کسی کمپنی کا نمبر تھا لہذٰا رابطے کے لیئے عدیل کا نمبر لکھوا دیا گیا۔ اگلے دن پاکستان روانگی تھی۔ ائیرپورٹ پہنچنے سے پہلے ہی پولیس کا فون آ گیا کہ موبائل مل گیا ہے اور ہوٹل پہنچا دیا گیا ہے۔ اگلی پرواز پر دوسرے عملے کے ذریعے سے موبائل پاکستان پہنچ گیا۔
اسی ایکڑ زمین پر موجود باغ کے اندر سے ایک موبائل ڈھونڈ کر لانے پر ہم نے روٹرڈیم پولیس کو دل میں خراجِ تحسین پیش کیا اور ارادہ کیا کہ آئندہ کبھی دوبارہ وہاں گئے تو اس مضبوط دوشیزہ اور باقی جوانوں کے لیئے بھی کچھ سوغات اور تحائف لیتے جائیں گے۔ دعا کریں میرا جلد چکر لگے ایمسٹرڈیم۔
خاور جمال