Article by Khawar Jamal, Ex Crew. Posted by Abid Khalil

دیسی مسافروں کی خواہشات

 نقصان کوئی خاص نہیں اس نوکری کا بس زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ بال جلدی سفید ہو جائیں گے، جسم عمر سے کچھ آٹھ دس سال آگے چلا جائے گا۔ بھوک یا تو زیادہ لگنے لگ جائے گی یا مر جائے گی۔ نیند کا تو حساب ایسا ہو گا کہ چمگادڑ بھی شرما جائے۔ ذرا سا نزلہ یا زکام ہو جائے تو آپ نوکری پر نہیں جا سکتے کیونکہ اس وجہ سے کان کے پردوں ساتھ ساتھ کچھ اور بھی پھٹ سکتا ہے۔ لیکن آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ اگر آپ اپنا بہت اچھے سے خیال رکھیں، جس کی کوئی امید نہیں، تو ان سب چیزوں سے پھر بھی نہیں بچا جا سکتا۔ ہاں کم عرصہ یہ نوکری کریں گے تو کم نقصان ہوگا۔

اس نوکری کے مثبت رخ بھی بہت ہیں۔ ملک ملک کی سیر، طرح طرح کی ثقافت دیکھنے کے مواقع، مختلف شعبہ ہاۓ زندگی سے تعلق رکھنے والے مشہور لوگوں سے ملاقات۔ میں نے بڑے لوگوں سے ملاقات کی۔ کئی کے ساتھ تصاویر بنوائیں، آٹوگراف لیے، کئی کو اگنور بھی کیا۔ ہندوستان کے عظیم فنکار نصیر الدین شاہ سے ملاقات کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ ان کے علاوہ اوم پوری اور گلشن گروور سے بھی لندن میں ملاقات رہی۔ ابھی اس فہرست میں وزراء اعظم اور بہت سی سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں۔

 دیسی مسافر، سب نہیں، صرف اٹھانوے اعشاریہ نو فیصد، بھلے بس کا ٹکٹ لیں یا جہاز کا وہ اپنی نشست پر کمپنی کا بہنوئی بن کر بیٹھتے ہیں اور اس نشست سے برخاستگی تک وہ پی ٹی وی کے پرانے ڈرامے خواجہ اینڈ سنز کے داماد لڈن میاں کا کردار بطریق احسن نبھاتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے نابغہ روزگار عملے سے ملاقات اور بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ان سے بھی یہی پتہ چلا کہ دیسی مسافر ہر جگہ ایک ہی طرح کے پائے جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو کھانے کی میز پر سلا دینا، بھرے جہاز میں بچے کا پیمپر نشست کے اوپر ہی بدل دینا، دوران پرواز اپنے بچوں کو میسی اور رونالڈو سمجھ کر جہاز کے اندر فٹبال کھیلنے کے لیے کھلا چھوڑ دینا۔ یہ سب باتیں ان کے اور ہمارے مسافروں میں مشترک پائی گئیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ وزیر تعلیم سے بات کرتا ہوں کہ نصاب سے یہ غیر ضروری مضامین نکلوا دیں جیسا کہ طالب علموں کو یہ پڑھانا کہ جہاز کے عملے کے پاس ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی آپ خواہش کریں گے۔ ایسا جنت میں ممکن ہو گا، جہاز میں نہیں۔ یہ پتہ نہیں ٹکٹ پر لکھا ہوتا ہے یا کوئی یہودی سازش ہے کہ زیادہ تر مسافر سمجھتے ہیں کہ جہاز کے پچھلے حصے میں اشرف کریانہ سٹور، بھینسوں کا بھانہ، پھلوں کے باغات اور کیفے موجود ہوتا ہے جہاں آپ کبھی بھی گپ شپ لگانے آ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ترقی یافتہ ممالک کی فضائی کمپنیوں کی بات نہیں ہو رہی۔ ان میں سے کافی تو اب پرواز میں الگ “اپارٹمنٹ” بھی فروخت کے لیے پیش کرتی ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں کہ اسلام آباد سے لاہور جو کہ آدھے گھنٹے سے بھی کم دورانیے کی پرواز ہے، اس پر چائے کے لیے “تازہ دودھ” ایسے مانگا جاتا ہے جیسے عملے نے ہنگامی حالات میں نکلنے والے دروازے کے ساتھ موجود ہینڈل میں رسی ڈال کے بھینس باندھی ہوئی ہے اور آپ کے کہنے پر عملہ آستینیں چڑھائے بھینس کے ساتھ راز و نیاز میں مصروف عمل ہے کہ حضور چائے میں “تازہ” دودھ پسند فرماتے ہیں۔ دنیا کی بہت سی کمرشل فضائی کمپنیاں دو چار گھنٹے کی پروازوں میں تو پانی بھی پوچھنا گوارا نہیں کرتیں۔ اگر تین چار گھنٹے کی پرواز ہے تو پانی، چائے یا مونگ پھلی کا پیکٹ پکڑا کر مسافر کے آباؤاجداد پر احسان عظیم کیا جاتا ہے۔ کم بجٹ فضائی کمپنیوں کی پرواز میں تو یہ چیزیں خرید کر کھانی پینی پڑتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں!! خیر چھوڑیں۔

 اچھا چلیں نہ چھوڑیں۔ تیس منٹ کی بھی پرواز ہو تو “سنیکس” کی پیشکش لازمی کی جاتی ہے۔ اور جب سترہ منٹ کے قلیل وقت میں آٹھ دس لوگوں کو وہ کھلانے بھی ہوں تو اس وقت شدید دل کرتا ہے کہ جس طرح آپ نے یہ لفظ پڑھا ہے اسی طرح یہ “سانپ” ہی بن جائے اور معزز مہمانوں کو کھا جائے۔ چشم تصور میں کافی مرتبہ سانپ اور میں نے ایک دوسرے کو آنکھ مار کے اس بات پر چائے کا جام فضا میں بلند کر کہ مسرت کا گھونٹ بھی بھرا ہے اور پھر سانپ نے مجھے یہ بھی کہا کہ “سر جی ہور کوئی ساڈے لائق”؟

ایک مرتبہ کراچی سے لاہور کی پرواز تھی۔ دوپہر کا وقت تھا چنانچہ ولیمہ کا خاطر خواہ انتظام تھا۔ ایک باراتی (مسافر) آ کر پچھلی نشستوں میں سے ایک پر تشریف فرما ہو کر کہنے لگے ، کھانا تو دیں گے نا؟ دل کے پرنٹر میں یہ بات سن کر فوراً ان کے اہل وعیال  بارے فحش لڑیچر کی طباعت واشاعت شروع ہو گئی لیکن اس کی ترسیل کا کام جاری ہونے سے پہلے کمال مہارت سے مصنوعی مسکراہٹ سجا کر جواب دیا کہ کیوں نہیں جناب، ٹیک آف ہوتے ہی۔

چونکہ وہ پچھلی نشستوں پر براجمان تھے جو کہ گیلی (galley) جہاں عملہ کام کرتا ہے، کے قریب تھی تو ان کی باری پہلے آ گئی۔ سجی سجائی ٹرے رکھی ان کے سامنے تو کہنے لگے اس سے میرا کیا بنے گا۔ اتنا مہنگا ٹکٹ لیا اور اتنا سا کھانا۔ دل کا پرنٹر پھر چالو ہو گیا لیکن میں نے پرنٹر پر پتھر رکھ کر اس کا پلگ نکال دیا۔ جواب دیا بسم اللّٰہ کریں اور بھی آ جائے گا۔ مشروب میں جب انھوں نے ڈائٹ سیون اپ مانگی تو میرے ساتھی کی ہنسی نکل گئی جس کو کوور کرنے کے لیئے مجھے ان کو دو گلاس ڈرنک دینا پڑی۔ یہ صاحب انہیں لوگوں میں سے تھے جو ڈبل چیز برگر کے ساتھ ڈائٹ کوک آڈر کرتے ہیں۔

خیر اضافی کھانا کھانے کے بعد وہ اپنی اصل حالت میں آ چکے تھے۔ ٹائی کسی جھوٹے کیس میں سزائے موت پانے والے غریب شخص کی نعش کی مانند چاک گریباں سے جھول رہی تھی۔ بر اعظم ایشیا کو شرم دلاتی توند اعظم پر موجود قمیص کے درمیانی بٹن پر مجھے “سپارٹنز” کے کسی جنگجو کا گماں ہوا جس نے جان پر کھیل کر قمیص کا جوڑ سنبھالا ہوا تھا۔ میری گنہگار آنکھوں نے انھیں مرنڈا کی آدھی بوتل آخری قطرے تک خالی کرتے دیکھا۔ اور پھر ایک اختتامی ڈکار مثل راکٹ ان کا معدہ چیرتی، گلے کی نالیاں ٹاپتی ان کا منہ پیچھے چھوڑتی ہوئی جہاز کے کیبن میں گم ہو گئی۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ سینیر کہتے ہیں کسٹمر از آلویز رائٹ۔

کراچی قریب آ رہا تھا۔ مسافروں کی پیٹیاں بندھوا کر میں اپنی نشست پر آبیٹھا۔ ابھی واپسی کی پرواز پر یہ ساری مشق دوبارہ کرنی تھی۔ یہ سوچ کر میں نے دل کا پرنٹر پھر آن کر لیا۔

خاور جمال